آیت الله سید حسن مدرس نے جب زمانہ سامراجیت میں نھضت مشروطیت کی حمایت کا ارادہ کیا تو حاج آقا نورالله اصفهانی کی ہمراہی میں آمریت مزاج رکھنے والوں کے خلاف ایک پوشیدہ یونیٹی تشکیل دی اور مشروطیت کے طلبکار بختیاروں سے پوشیدہ رابطہ و تعاون قائم کیا ۔
آیت الله سید حسن مدرس کی مدد سے مشروطیت کے طلبکار بختیاروں نے صمصام السلطنه کی رھبری میں شھر اصفھان میں حکومتی کارندوں کو شکست دی اور ان کے ہاتھوں سے حکومت چھین کر شھر کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا مگر جب انہوں نے اپنے نقصان کی بھرپائی کے لئے لوگوں سے غیر قانون اور آئینی ٹیکس وصول کرنا شروع کیا تو ایت اللہ مدرس نے شدید اعتراض کیا نتیجہ میں صمصمام السلطنه انہیں گرفتار کرکے شھر بدر کردیا مگر علماء اور عوام کے شدید اعتراض کی وجہ سے دوبارہ شھر لوٹانے پر مجبور ہوا اور ٹیکس کے سلسلہ میں بھی تجدید نظر کی البتہ ان پر جانی حملہ بھی کروا کہ جس میں ایت اللہ مدرس بال بال بچ گئے ۔
شھید ایت اللہ مدرس دوسری قومی پارلیمنٹ میں آخوند خراسانی و شیخ عبدالله مازندرانی کے وسیلہ درجہ اول کے مجتھدین کے طور پر قومی پارلیمنٹ میں معرفی کئے گئے کہ جسے قومی پارلیمنٹ نے مجبور ہوکر قبول کیا ، اس طرح اپ شھر اصفھان چھوڑ کر تھران روانہ ہوگئے ۔
شھید ایت اللہ مدرس قومی پارلیمنٹ کے چوتھے دورے کے انتخابات میں کہ جو سن 1339 ھجری قمری میں انجام پایا ، شھر تھران کے ممبر کے طور پر چنے گئے اور پارلیمنٹ ممبرس کے وسیلہ نائب پارلیمنٹ کے عنوان سے انتخاب کئے گئے ۔
شھید ایت اللہ مدرس حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود عوامی کے وسیلہ پانچویں بار بھی قومی پارلیمںٹ کے ممبر چنے گئے اور رضا خان کی استعماری سیاست کا پردہ فاش اور اس کے خلاف قیام کیا اسی بنیاد پر رضا خان کے حامی ایک پارلیمںٹ ممبر نے اپ کو طمانچہ مارا ، اپ کے چہرے پر طمانچہ پڑنے کی خبر جب پارلیمںٹ سے باہر پہنچی تو تھران کے تجاروں نے مارکیٹ بند کردی اور پھر علماء و عوام نے مل کر اپ کی حمایت میں مظاھرے شروع کردیئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
Add new comment