صبر کو معرفت کی حمایت اور سپورٹ کی ضرورت ہے یعنی جب انسان حقیقت کو جانتا اور پہچانتا ہے تب کہیں جاکر صبر کرتا ہے کہ ان حالات میں صبر کو حقیقی پیرایا اور ملبوس حاصل ہوتا ہے کیوں کہ جب انسان یہ جان لے اور اس حقیقت سے اگاہ ہو کہ اس حادثہ کے پیچھے کونسی حکمت اور حقیقت پوشیدہ ہے تو پھر صبر کرنا اسان ہوگا جیسا کہ حضرت زينب سلام الله علیها نے اپنے علم اور مکمل اگاہی کے بعد کربلا میں رونما ہونے والی عظیم مصیبت پر صبر کیا ، یہ وہ مقام علم و اگاہی ہے جس کی جانب حضرت امام سجاد علیہ السلام نے بھی اپنے بیان میں اشارہ فرمایا اور اپ کو غیر تعلیم یافتہ عالمہ بتایا ۔ (۱)
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے صبر و استقامت کو حقیقی لباس اور معنی عطا کیا اور یہ حقیقت سب پر واضح ہوگئی کہ صبر اور استقامت کرنے والوں کے حق میں یہ خدا کا وعدہ ہے کہ کامیابی صبر کرنے والوں کے قدم چومے گی اور مشکلات کا خاتمہ ہوگا کیوں کہ خداوند متعال نے فرمایا : «إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ»؛ (محبوب! میری طرف سے) فرما دیجئے: اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو اپنے رب کا تقوٰی اختیار کرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے جو اس دنیا میں صاحبانِ احسان ہوئے، بہترین صلہ ہے، اور اللہ کی سرزمین کشادہ ہے، بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا ۔ (۲)
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا صبر کہ جو اپ کی عزت ، سربلندی ، ازادگی ، عفت ، پاکدامنی اور حیا کا ضامن ہوا ، عبادتوں کے نتیجہ میں اپ پر خدا کی عنایت اور اس کی جانب سے عطا کردہ طاقت کی وجہ سے ہوا ، اپ کو یہ جذبہ اور طاقت اس لئے بھی ملی کہ اپ اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کہ وارث تھیں اور معصومہ کونین سلام اللہ علیھا کی سیرت اور اپ کا طرز حیات اپ کے لئے نمونہ عمل تھا ، ایک ایسی ماں جن کے قدم مبارک پر عبادتوٓں کی کثرت کی وجہ سے ورم آجاتا تھا ۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، موسسه الوفا، ج ۴۵، ص ۱۶۴۔
۲: قران کریم ، سورہ زمر ، ایت ۱۰۔
۳: ابن شهرآشوب، المناقب، ج ۳، ص۱۱۹۔
Add new comment