امام حسین(ع) نے فرمایا:
إنّ عَفَى النّاسِ مَنْ عَفَا عَنْ قُدْرَةٍ ؛ سب سے زیادہ معاف کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی طاقت کے باوجود معاف کردیں ۔ (۱)
حضرت سید الشهدا امام حسین علیہ السلام نے اس عظیم حدیث میں عفو و بخشش کرنے والے کے صفات بیان فرمائے ہیں کہ بخشش یہ ہے کہ انسان بدلہ اور انتقام لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود کسی کو بخش دے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی اس حدیث میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ عفو و بخشش کے مراحل ہیں جیسا کہ قران کریم نے بھی اپنی ایات میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے :
عفو و بخشش کے مراحل
۱: بخش ایک کا ایک مرحلہ یہ ہے کہ انسان انتقام اور ہر قسم کے عکس العمل سے دوری اپنائے ، " وَ جَزاءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِثْلُها فَمَنْ عَفا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَی اللَّهِ إِنَّهُ لا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ ؛ اور ہر برائی کا بدلہ اس کے جیسا ہوتا ہے پھرجو معاف کردے اور اصلاح کردے اس کااجر اللہ کے ذمہ ہے وہ یقینا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ہے " ۔ (۲)
۲: جس نے اذیت پہنچائی ہو اس سے اپنا رخ موڑ لے ، اسے بے حیثت قرار دے اور بھول جائے ، قران کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا : " فاصفح الصفح الجمیل ؛ آپ ان سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر کردیں " ۔ (۳)
امام ہشتم علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے مذکورہ ایت کریمہ " فاصفح الصفح الجمیل ؛ آپ ان سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر کردیں " کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا : اس ایت کریمہ میں مراد بغیر سرزنش کئے ہوئے عفو و بخشش کی جائے ۔ (۴)
قران کریم نے ایک اور مقام پر فرمایا " قَوْلٌ مَعْروفٌ وَ مَغْفِرُةٌ خیرٌ مِنْ صَدَقَةٍ یتْبَعُها اَذی وَ اللهُ غَنِی حلیم ؛ نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو، اور اللہ بے نیاز بڑا حلم والا ہے " ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱ : مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۷۵، ص ۱۲۔
۲: قران کریم ، سورہ شوری ، ایت ۴۰ ۔
۳: قران کریم ، سورہ حجر ، ایت ۸۵ ۔
۴: شیرازی ، ایت اللہ ناصر مکارم، تفسیر نمونہ، ج۱۱، ص ۱۲۸۔
۵: قران کریم ، سورہ بقرہ ، ایت ۲۶۳ ۔
Add new comment