مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی رحلت اور اپ کی وفات کے بعد اسلامی حکومت ۲۵ سال تک حقیقی الھی اور اسلامی معارف سے بہت دور چلی گئی ، دونوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوگیا ، اسلام دائرہ حکومت میں توسیع اور فتوحات کی وجہ سے غنائم جنگی کی کثرت اور مختلف ممالک سے انے والی ثروت نے مسلمانوں خصوصا خلفاء کے مزاج کو بدل دیا ، سادہ زیستی نے اشرافیت کو جگہ دے دی ، سماجی طبقات کے درمیان کافی فاصلہ ہوگیا اور معاشرہ میں بے عدالتی و بے انصافی پھیل گئی ۔
خلفائے راشدین کا دوران حکومت کچھ ایسا تھا کہ مخصوص افراد کمترین کوشش کے نتیجہ میں زیادہ زیادہ امکانات حاصل کرلیتے تھے مگر معاشرہ کی اکثریت دن بہ محرومیت اور فقر و ناداری سے روبرو ہوتی جارہی تھی ۔
اس ماحول نے لوگوں کو تیسرے خلیفہ عثمان کے خلاف قیام کرنے ، ان کے طرز حکومت پر اعتراض کرنے اور ایک ایسے نئے خلیفہ کے انتخاب پر مجبور کردیا جو ان کی مشکلات کو حل کر سکے نیز اقتصادی ھرج و مرج کا خاتمہ کرسکے ۔
مولائے کائنات ، حلال مشکلات امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت تنہا وہ شخصیت تھی جو مسلمانوں کو دیر سے سہی مگر اپنی نجات کا وسیلہ سمجھ میں ائی ، حضرت علیہ السلام خاندان وحی کے دست پروردہ ، مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے تربیت یافتہ ، اپ کے امین اور اپکی تحریک کے محافظ تھے ، اسی بنیاد پر لوگوں نے حضرت علیہ السلام کے گھر کی چوکھٹ روند ڈالی تاکہ اپ زمام خلافت تھام کر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی امت کی مشکلات کا خاتمہ کردیں ۔
امام علی علیہ السلام نے بھی جب زمام حکومت سنبھالا تو سب سے پہلے بیت المال میں خرد و برد پر شدید تنقید فرمائی اور فرمایا کہ جس کے پاس بھی ناحق بیت المال موجود ہے علی [علیہ السلام] اس سے واپس لیکر رہیں گے ۔
نھج البلاغہ میں موجود خطبات اس کے بیانگر ہیں کہ حضرت نے بیت المال کی تقسیم میں برابری سے کام لیا اور حتی اپنے بھائی عقیل کو بھی زیادہ دینے سے انکار کردیا ۔
جب امام علی علیہ السلام کے معاشی انصاف یعنی عطا یا کی برابری پر اعتراض کیا گیا تو حضرت نے فرمایا :
أَتَأْمُرُونِّي أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ - فِيمَنْ وُلِّيتُ عَلَيْه - واللَّه لَا أَطُورُ بِه مَا سَمَرَ سَمِيرٌ - ومَا أَمَّ نَجْمٌ فِي السَّمَاءِ نَجْماً - لَوْ كَانَ الْمَالُ لِي لَسَوَّيْتُ بَيْنَهُمْ - فَكَيْفَ وإِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللَّه - أَلَا وإِنَّ إِعْطَاءَ الْمَالِ فِي غَيْرِ حَقِّه تَبْذِيرٌ وإِسْرَافٌ - وهُوَ يَرْفَعُ صَاحِبَه فِي الدُّنْيَا - ويَضَعُه فِي الآخِرَةِ - ويُكْرِمُه فِي النَّاسِ ويُهِينُه عِنْدَ اللَّه - ولَمْ يَضَعِ امْرُؤٌ مَالَه فِي غَيْرِ حَقِّه ولَا عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِه - إِلَّا حَرَمَه اللَّه شُكْرَهُمْ - وكَانَ لِغَيْرِه وُدُّهُمْ - فَإِنْ زَلَّتْ بِه النَّعْلُ يَوْماً - فَاحْتَاجَ إِلَى مَعُونَتِهِمْ فَشَرُّ خَلِيلٍ - وأَلأَمُ خَدِينٍ ! (۱)
کیا تم مجھے اس بات پرآمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں ، ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ، خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے ، یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مال خدا ہے اور یاد رکھو کہ مال کا نا حق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اور یہ کام انسان کو دنیا میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے ، لوگوں میں محترم بھی بنا دیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں پست تر بنا دیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو نا حق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اسے شکریہ سے بھی محروم کردیتا ہے اور اس کی محبت کا رخ بھی دوسروں کی طرف مڑجاتا ہے ، پھر اگرکسی دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتاج ہوگیا تو وہ بد ترین دوست اور ذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: نهج البلاغہ ، خطبہ ، 126 ۔
Add new comment