ہم امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں کہ "السلام علی یعقوب" اگر اس جملہ میں جناب یعقوب نبی علیہ السلام کا ارادہ کرنا چاہتے ہوں کہ جن ۱۲ لڑکے تھے اور سبھی صحیح و سالم اپ کی خدمت میں مشغول تھے مگر ایک دن ان لوگوں نے کہا کہ اے بابا [حضرت] یوسف [علیہ السلام] کو بھڑیا کھا گیا ہے تو جناب یعقوب نے سنتے ہی اپنی کمر تھام لی اور ان کے فراق میں اتنا انسو بہایا کہ ان کی انکھیں سفید ہوگئیں یا ارادہ کرو کربلا کے یعقوب کا کہ جن کا ایک ہی کڑیل جوان بیٹا تھا ، اس یعقوب کربلا نے اپنے لال کی زبان سے یہ کہتے سنا کہ اے بابا ! خدا حافظ ، اب میں بھی میدان کار زار کو چلا ، (۱) چاہے ارادہ کرو اس یعقوب کا جنہوں نے جب اپنی انکھوں سے جناب یوسف کا خون الود سالم پیراہن دیکھا تو بے ساختہ فرمایا عجب مہربان بھڑیا تھا ، (۲) یا ارادہ کرو یعقوب کربلا کا کہ جنہوں نے اپنے لال کو ٹکڑے ٹکڑے دیکھا کہ نہ ان کے بدن کا کوئی حصہ سالم بچا تھا اور نہ ہی ان کا پیراہن سالم تھا بلکہ فوج یزید نے اپنی تلواروں سے جناب علی اکبر علیہ السلام کے بدن ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے ۔
جناب یعقوب سے درخواست کی گئی کہ جناب یوسف کو اپنے ساتھ صحرا میں کھیلنے کے لئے لے جائیں تو انہوں نے لے جانے سے منع کیا اور فرمایا کہ مجھے ان کی جدائی برداشت نہیں مگر جب علی اکبر علیہ السلام نے میدان کربلا میں جنگ کے لئے جانے کا ارادہ کیا تو خواتین و اہل حرم نے انہیں روکا مگر حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا انہیں جانے دو کہ ان کے جد ان سے ملاقات کے لئے بہت مشتاق ہیں ۔ (۳)
جب جناب یعقوب کے پاس جناب یوسف کا پیراھن لیکر ایلچی ایا اور جناب یعقوب نے اسے اپنی انکھوں سے لگایا تو ان کی انکھوں می روشنی اگئی مگر امام حسین علیہ السلام جب اپنے کڑیل جوان لال کے سراہنے پہنچے تو منکا ڈھل رہا تھا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے پاس اور امام حسین یزید ملعون کے پاس
جب جناب یوسف کو ان کے والد سے جدا کردیا گیا اور ان کے بھائیوں میں سے بعض نے کہا کہ انہیں قتل کردو تو بعض نے کہا کہ نہیں انہیں قتل نہ کرو بلکہ کویں میں ڈال دو اور ان لوگوں نے اخری فیصلہ یہ کیا کہ انہیں کویں میں ڈال دیا جائے مگر امام حسین علیہ السلام جب ان کے تمام بھائی ، بیٹے ، انصار و مددگار مارے گئے اور خود کا بدن بھی ھزاروں زخموں سے چھلنی ہوگیا ، کسی نے اپ کو تیر، کسی نے نیزہ اور کسی نے خنجر مارا پھر بھی انہوں نے اس پر اکتفاء نہ کیا بلکہ اپ کے قتل کے نارے بلند ہونے لگے ، سب نے ملکر حملہ کیا اور اپ کو پس گردن سے ذبح کردیا کہ جسے قلم لکھنے سے عاجز و ناتوان ہے ۔ (۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار، جلد 45، صفحه 45- لهوف، صفحه 49- مقاتل الطالبین، صفحه 85 ۔
۲: مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار،جلد 12، صفحه 225- تفسیر قمی، جلد 2، صفحه 342 ۔
۳: الگرمرودی التبريزی ، محمدرفيع ، ذریعة النجاة، صفحه 125 به نقل از کتاب مهیج الاحزان ۔
۴: مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار، جلد 45، صفحه 55- مقتل خوارزمی، جلد 2، صفحه 35 ۔
Add new comment