صلہ رحم یعنی رشتہ داروں اور اعزاء و اقرباء کی امداد کے مختلف و متعدد طریقے اور راستے ہیں جس کے وسیلہ ان کی دلجوئی کی جاسکتی ہے اور ان سے بہتر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے ۔
قران کریم نے صلہ رحم کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا : « وَ اعبُدوا اللهَ وَ لاتُشرکوا بِهِ شَیْئاً وَ بالوالِدینِ احساناً و بِذِی القُربی ۔۔۔ ؛ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور قرابتداروں کے ساتھ ۔۔۔۔ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو » (1)
اور ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا: «و اتَّقوا اللهَ الَّذی تَسائَلونَ بِهِ و الاَرحامَ انَّ اللهَ کانَ عَلیکمْ رَقیباً ؛ اور قرابتداروں کی بے تعلقی سے بھی- اللہ تم سب کے اعمال کا نگراں ہے » ۔ (2)
1: جسم و جان کے وسیلہ مدد
صلہ رحم کا بزرگترین اور سب اعلی مرتبہ یہ ہے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی جسم و جان کے وسیلہ حمایت کرے ، یعنی اگر کسی جگہ اور مقام پر رشتہ داروں میں سے کسی ایک کی جان کو خطرہ لاحق ہو تو شریعت کے دائرہ میں جان کی حد تک اس کا دفاع کرے اور اس کے ساتھ کھڑا رہے تاکہ اس سے خطرہ ٹل جائے ۔
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا : جان و مال کے وسیلہ صلہ رحم کرنے والے کو خداوند متعال ۱۰۰ شھید کا اجر عنایت کرے گا ۔ (3)
2: مالی امداد
اگر رشتہ داروں میں ضرورتمند افراد موجود ہوں تو ان کی رسیدگی اور ان کی ضرورتوں کا پورا کرنا لازم و ضروری ہے ، دین مبین اسلام نے اس چیز پر حد سے زیادہ تاکید کی ہے اور قران کریم نے اپنی ایات میں رشتہ داروں کی مدد کو لازم و ضروری جانا ہے جیسا کہ سورہ اسراء کی 26 ویں ایت شریفہ میں ارشاد فرمایا : «و آتِ ذَالقربی حقَّهُ و المِسکینَ. . . » (4) اور دیکھو قرابتداروں کو اور مسکین کو اس کا حق دے دو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا ۔
امیرمؤمنین علی ابن طالب علیه السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :« فَمَنْ اَتاهُ اللهُ مالاً فَلْیَصِله بِه قَرابَتَهُ » (5) جسے خداوند متعال نے مال و ثروت عطا کیا ہے وہ اپنے رشتہ داروں کی دستگیری کرے ۔
3: فکری امداد
اگر رشتہ داروں میں سے کوئی فرد ہدایت اور راہنمائی کی نیازمند ہو تو اس کی فکری مدد کرنا قابل تحسین عمل ہے ، مثال کے طور پر اگر رشتہ داروں میں سے کوئی فرد اہل نماز و روزہ نہ ہو تو اس پاس جاکر نماز و روزہ کی اہمیت و فضلیت کو بیان کرے ، اسے نماز و روزہ چھوڑنے کے نتائج اور عذاب الھی سے باخبر کرے ، یہ عمل انسان کی فکری امداد کا حصہ ہے ۔
مراجع کرام صلہ رحم کے سلسلہ میں انجام پانے والے استفتائات کے واجب میں فرماتے ہیں :
سوال: کیا انسان بے تقوا اور بے نمازی رشتہ داروں جیسے ماں ، باپ ، بہن ، بھائی اور دیگر قریبی افراد سے قطع رحم کرسکتا ہے ؟
جواب: قطع رحم جائز نہیں ہے البتہ شرعی حدود کی مراعات کرتے ہوئے انہیں امر بالمعروف اور نہی المنکر کیا جائے ۔ (6)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1: قران کریم ، سورہ نساء، ایت 36 ۔
2: قران کریم ، سورہ نساء، ایت 1 ۔
3: حرعاملی، وسائل الشیعه، ج 6، ص 286 -
4: قران کریم ، سورہ اسراء ، ایت 26 ۔
5: نهج البلاغه ، خطبہ 142 -
6: استفتائات، ج 1، ص 488 ۔
Add new comment