قطع رحم کی مذمت

Sat, 07/23/2022 - 06:31

قطع رحم، رشتہ داروں اور اعزاء و اقرباء سے قطع تعلق کی اسلام نے شدید مذمت کی ہے لہذا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے کہ اس سے پرھیز کرے ، خداوند متعال نے قران کریم نے قطع رحم کرنے والوں اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والوں کی تین مقام پر لعنت و ملامت کی ہے ۔

قران کریم نے سورہ محمد کی ۲۲ ویں اور ۲۳ ویں اور سورہ بقرہ کی ۲۷ ویں اور سورہ رعد کی ۲۵ ویں ایت شریفہ میں ارشاد فرمایا : « فَهَلْ عَسَیتُمْ إِنْ تَوَلَّیتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحامَکمْ - أُولئِک الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمی أَبْصارَهُمْ - وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ » (۱) تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو - یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے -  اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں ۔

اور حضرت امام جعفر صادق علیه السلام اپنے جد حضرت امام سجاد علیه السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا: «. . . اِیّاک وَ مصاحَبَهَ القاطِعِ لرَحِمِهِ فَانَّهُ وَجَدتُهُ مَلْعوناً فی کتابِ اللهِ فی ثَلاثِ مَواضعَ ؛ جس نے اپنے رشتہ داوں سے قطع رابطہ کر رکھا ہے اس کی ہمنشینی سے پرھیز کرو کیوں کہ قران کریم نے ایسے انسان کی تین جگہ پر لعنت و ملامت فرمائی ہے » (۲) اور حضرت علیہ السلام ایک دوسرے مقام پر یوں فرماتے ہیں کہ " خدا سے پناہ مانگتا ہوں ایسی گناہوں کے سلسلہ میں جس سے نابودی بہت قریب ہوجاتی ہے ، موت نزدیک اجاتی ہے اور شھر ابادی سے خالی ہوجاتے ہیں ، وہ گناہیں قطع رحم ، ماں اور باپ کو تکلیف پہنچانا اور ان کے ساتھ نیکی نہ کرنا ہے ۔ (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: قران کریم ، سورہ محمد ، ایت ۲۲ و ۲۳ ۔ سورہ بقرہ ، ایت ۲۷ ۔ سورہ رعد ، ایت ۲۵ ۔

۲:  شیخ عباس قمی ، سفینه البحار، ج ۱، ماده رحم ۔

۳: کلینی ، اصول کافی، ج ۲ ، ص ۴۴۸ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 30