بدکلامی اسلام کی نگاہ میں

Mon, 06/06/2022 - 05:13
گالی گلوج

بدکلامی اور گالی گلوج کی دین اسلام اور معصومین علیھم السلام نے شدید مذمت کی ہے اسی بنیاد پر معصوم اماموں نے اس عمل کی انجام دہی سے لوگوں کو منع کیا ہے اور بعض اوقات گالی گلوج کرنے والے انسان سے اپ نے قطع تعلق بھی فرمایا ہے ۔ [1] [2]

بدکلامی اور گالی گلوج ایک ایسا مسئلہ اور معاملہ ہے کہ جسے نہ فقط دین اسلام کہ اس نے اس عمل کو حرام قرار دیا ہے بلکہ ہر صاحب عقل اس سے بیزار ہے اور بدکلام و گالیاں دینے والے انسان سے دوریاں بنائے رہتا ہے ، گالیاں انسانوں کے جزبات کو ٹھیس اور روح کو چوٹ پہونچاتی ہیں ۔    

بعض روایات میں موجود گالی گلوج کا وہم !!

بعض روایات ، بیانات اور احادیث میں کچھ ایسے الفاظ کا استعمال ہوا ہے کہ جس سے کچھ لوگوں نے بدکلامی اور گالی گلوج سمجھا ہے ، اس سلسلہ میں دو قسم کی روایات موجود ہیں :

روایات کی پہلی قسم معتبر نہیں ہے یعنی یا یہ روایات جعلی اور جھوٹ ہیں یا راوی ضعیف ہے جبکہ دوسری قسم حقائق سے پردہ اٹھانے اور لوگوں کو اگاہ کرنے کے مقام میں ہے ، یعنی وہ روایتیں ھرگز بدکلامی اور گالی گلوج کے مقام میں نہیں ہیں بلکل ویسے ہیں جیسے کوئی ڈاکٹر بیماری اور مرض کو بیان کرکے مریض اور اس کے اہل خانہ کو اگاہ کرنا چاہتا ہے ۔ بعض روایات میں لفظ «ولدالزنا» کا استعمال ہوا ہے جیسے کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا : «لَا يُحِبُّنِي‏ ثَلَاثَةٌ؛ وَلَدُ الزِنًا وَ مُنَافِقٌ وَ رَجُلٌ حَمَلَتْ بِهِ أُمُّهُ فِي بَعْضِ حَيْضِهَا ؛[3] تین لوگ مجھ سے محبت نہیں کرتے ، ایک زنا زادہ ، دو منافق اور تین جس کا نطفہ حالت حیض میں ماں کے شکم میں ٹھہرا ہو ۔

اس سلسلہ کی دوسری روایت یہ ہے کہ خلیفہ اول ابوبکر ابن ابی قحافہ نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ آنحضرت نے فرمایا : «...لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا سَعِيدُ الْجَدِّ طَيِّبُ الْمَوْلِدِ وَ لَا يُبْغِضُهُمْ‏ إِلَّا شَقِيُ‏ الْجَدِّ رَدِي‏ءُ الْوِلَادَةِ ؛[4] انہیں [اهل بیت] کو خوش قسمت اور حلال زادہ کے سوا کوئی اور دوست نہ رکھے گا اور بدقسمت و بد طینت کے سوا کوئی اپ سے دشمنی نہ کرے گا ۔

اس طرح کی روایات میں پوشیدہ نکتہ

یہ روایتیں مقام حصر میں نہیں ہیں یعنی ان روایتوں کا ھرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا دشمن، فقط اور فقط زنا زادہ یا جس کی ماں حالت حیض میں حاملہ ہوئی ہوگی اور اس کا نطفہ ٹھہرا ہوگا وہ امام علی علیہ السلام کا دشمن ہوگا اگرچہ اس حالت میں پیدا ہونے والے بچے میں دشمنی کا زیادہ امکان موجود ہے کیوں کہ غیر شرعی اور حرام حالت میں پیدا ہونے والے بچے میں شیطان شریک ہوتا ہے اور شیطان کی مشارکت اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی کا زمینہ فراہم کرتی ہے ، لہذا ایسے مقام پر لوگوں کو اگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ مرد و عورت کے درمیان غیر شرعی رابطہ قائم نہ ہونے پائے اور نتیجہ میں اہل بیت علیھم السلام کی دشمنی سے بھی انہیں روکا جاسکے ۔[5] کیوں کہ ممکن ہے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا دشمن منافق یا کافر یا اہل کتاب میں سے عیسائی یا یہودی ہو کہ جو ولادت کے حوالے سے حلال زادہ ہیں ، اسلام نے ان کے نکاح اور ان کی ولادت کو صحیح جانا ہے [6] جبکہ یہ لوگ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے محبت بھی نہیں کرتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: کلینی ، اصول کافی، ج 2، ص 323 ۔ و قران کریم ، سوره احزاب ، آیت 33 ۔
۲: ابن شهرآشوب، مناقب، ج 3، ص 208 ۔
۳: حمویی، فرائد السمطین، ج 2، ص 40 ۔
۴: خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج 4، ص 57 ۔
۵: طوسی، تهذیب الاحکام، ج 7، ص 472 ۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 16