بد اخلاقی
امام على عليہ السلام نے فرمایا: مَن ساءَ خُلُقُهُ ضاقَ رِزقُهُ (۱)
جس کا اخلاق برا ہوگا اس کی روزی کم ہوجائے گی ۔
مختصر شرح:
بدکلامی اور گالی گلوج کی دین اسلام اور معصومین علیھم السلام نے شدید مذمت کی ہے اسی بنیاد پر معصوم اماموں نے اس عمل کی انجام دہی سے لوگوں کو منع کیا ہے اور بعض اوقات گالی گلوج کرنے والے انسان سے اپ نے قطع تعلق بھی فرمایا ہے ۔ [1] [2]
امام سجاد علیہ السلام:كانَ آخِرُ ما أوصى بِهِ الخِضرُ مُوسى بنَ عِمران عليهماالسلامأن قالَ لاتُعَيِّرَ نَّ أحَدا بِذَنبٍ؛ کبھی بھی کسی کو اسکے گناہوں کے سبب رسواکرنے کی کوشش نہ کرنا۔
قرآن مجید، روایات اور مسلمانوں کی سیرت کے پیش نظر برا بھلا کہنا ( گالی دینا) خاص طور پر جھوٹ ہونے کی صورت میں، شرع مقدس اسلام کی نظر میں حرام اور ممنوع ہے۔
پروردگار نے متکبرین کو ذلیل کیا ہے اور مغرورین کی ناک رگڑی ہے۔ غرور کا نتیجہ ناکامی، مایوسی، ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔خدا ان متکبروں کو سخت ناپسند کرتا ہے جن کی چال میں اکڑ ہوتی ہے اور ایسے لوگوں پر زمین و آسمان لعنت کرتے ہے۔ائمہ معصومین علیہم السلام نے غرور کا علاج پیونددار لباس، کہنہ نعلین گرد آلود چہرہ اور بازار سے سامان لا نے، معمولی سواری پر سوار ہونے اور مساکین کی ہم نشینی کو قرار دیا ہے۔ اور یہی طرز عمل اپنایا بھی ہے۔اللہ نے تکبر کرنے والوں سے نعمتیں سلب کرلی ہیں۔ شیطان کا انجام پیش نظر ہے کہ وہ اس ایک تکبر کی وجہ سے نعمت قرب الٰہی سے محروم ہو گیا۔ لہٰذا خبردار اس جلاد سے محفوظ رکھنا اور اس کے اسباب سے بھی اپنے کو بچائے رکھنا۔اسی ضمن میں مندرجہ ذیل نوشتہ ملاحظہ فرمائیں.