ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں سائبر اسپیس میں معلومات کے بلبلے حقیقیت و واقعیت کو متاثر کرنے کے درپئے ہیں اور دست و بازو، تیر و تلوار سے لڑی جانے والی جنگ اب گھروں میں بیٹھے انٹرنیٹ کی دنیا سے لڑی جارہی ہے ، جنگِ نَرم کے ماحول میں ہمارا معاشرہ شدید دباؤ میں ہے اور اسلامی نظام اور معاشرہ دشمنوں کی نرم اور گمراہ کن جارحیت کے زیر اثر ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں سائبر اسپیس میں معلومات کے بلبلے حقیقیت و واقعیت کو متاثر کرنے کے درپئے ہیں اور دست و بازو، تیر و تلوار سے لڑی جانے والی جنگ اب گھروں میں بیٹھے انٹرنیٹ کی دنیا سے لڑی جارہی ہے ، جنگِ نَرم کے ماحول میں ہمارا معاشرہ شدید دباؤ میں ہے اور اسلامی نظام اور معاشرہ دشمنوں کی نرم اور گمراہ کن جارحیت کے زیر اثر ہے۔ ہماری پوری دنیا فری میسنز کی قیادت میں ہے اور تمام عالمی جنگوں اور واقعات کی منصوبہ بندی اسی گروہ کے ذریعے کی جاتی ہے اور دنیا کے لوگوں کو جہالت اور گہری نیند میں رکھا جاتا ہے۔دوسری جنگ عظیم سے لے کر ویٹیکن کے پوپ کے انتخاب تک سب کچھ فری میسنز نے کیا جب کہ لوگوں کو طرح طرح سے گمراہ کرتے ہوئے کھیل کود میں الجھا کر گہری نیند سلا دیا گیا ہے۔
اس درمیان ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ہوشیار رہیں اور بدلتے حالات پر کڑی نظر رکھیں کیونکہ جہالت و نادانی وہ بیماری ہے جس نے لوگوں کا مستقبل تباہ کردیا اور منفعت پرستوں کو دین سے کھیلنے اور پنپنے کا موقع دیا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿سورة القصص؍٦٠﴾ اور تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے یہ محض زندگانی دنیا کا سرمایہ ہے اور اسی کی زیب و زینت اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور زیادہ پائیدار بھی تم عقل سے کیوں کام نہیں لیتے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:" لا بَلَغَ جَميعُ العابِدينَ في فَضلِ عِبادَتِهِم ما بَلَغَ العاقِلُ"، تمام عبادت گزاروں کو اپنی عبادت کی وہ فضیلت نہیں مل سکتی جتنی فضيات خدا عقل مند کو عطا کرتا ہے۔[الفصول المهمة فی أصول الأئمة (تکملة الوسائل جلد۱،صفحه۱۱۵]
پروردگار: جسے تو نے عقل عطا کیا تو اسے تو نے کیا عطا نہیں کیا اور جسے تو نے عقل نہیں دیا تو اسے دنیا میں کیاملا (خواجہ عبداللہ انصاری)، انسانی زندگی کا دارومدارعقل پر ہے اور جو شخص اپنے معاملات میں عقل استعمال نہیں کرتا تو وہ ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے۔
عقل رحمان کا ایک لشکر اور باطنی حجت ہے ، عقل چاہے طبعی ہو، باطنی ہو یا تجربی ہو اس کا تعلق جس بھی صنف سے ہو وہ ہمیشہ انسان کی ترقی کا سبب بنتا ہے۔
انبیاء کرام (ع)لوگوں کی عقل کو مدّنظر رکھ کر ان سے گفتگو اور ان کی ہدایت کرتے تھے، قیامت کے روز الله تعالی لوگوں کے عقل کے مطابق ان کا محاسبہ کرے گا ، کسی کی اندھی تقلید آخرت میں تباہی کا باعث ہے، یہی وجہ تھی کہ بنی اسرائیل نے اپنی کم عقلی اور تعصب کی وجہ سے ایک ہی دن میں ستر انبیاء کو شہید کیا تھا۔
آیات و روایات میں عقل کی اتنی زیادہ عظمت و فضیلت موجود ہونے کے باوجود کیا کہا جائے کہ صدر اسلام میں موجود کچھ لوگوں نے کس طرح لوگوں کے بے عقلی کی باتیں بتائیں اور اپنی ذاتی منفعت کی خاطر لوگوں کو بے وقوف بنایا ، ذیل کا واقعہ دیکھیئے اور اپنا سر دھنیئے:
جب معاویہ نے امیر المومنین علیہ السلام کی مخالفت کی تو اس نے چاہا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے جنگ کرنے سے پہلے اہل شام کی اطاعت کو آزمایا جائے اور دیکھا جائے کہ وہ کس حد تک اطاعت کرتے ہیں ، اس نے عمرو عاص سے مشورہ کیا۔
عمرو عاص نے کہا: اچھی بات ہے اگر تمھیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ علیؑ کے ساتھ لڑ سکتے ہیں یا نہیں تو پھر انھیں آزمالواگر یہ لوگ واقعی بے عقل ہیں توعلی ؑسے جنگ کریں گے اور اگر صاحبان عقل ہیں تو کبھی بھی جنگ نہیں کریں گے، اب ان کے آزمانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اہل شام کو حکم دو کہ وہ آئندہ جب کبھی کدّو پکانا چاہیں تو پہلے اسے ذبح کریں، اگر یہ لوگ تیرا کہا مان جاتے ہیں تو سمجھ لینا یہ لوگ بے عقل ہیں اور علیؑ کے خلاف تیرے مدد گار ہوں گے اور اگر انہوں نے تیرا کہنا نہ مانا تو سمجھ لینا کہ یہ لوگ صاحبان عقل ہیں اور علیؑ سےکبھی بھی جنگ نہیں کریں گے۔ معاد یہ کو عمرو عاص کا یہ مشورہ بہت پسند آیا، معاویہ نے حکم جاری کر دیا کہ جو شخص کل سے کدّو پکانا چاہے تو اسے چاہیے کہ کدّو کو پہلے گوسفند کی طرح سے ذبح کرے بعد میں اسے پکائے۔
شام کے لوگوں نے اس پر کوئی بھی اعتراض نہ کیا اور چند دنوں میں یہ بدعت پورے شام میں پھیل گئی، چند دنوں کے بعد یہ بدعت اہل عراق کے کانوں تک پہنچی تو ایک شخص نے امیر المومنین علیہ السلام سے اس کے متعلق سوال کیا «القرع یذبح؟» آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: «لا یذبح» کدّو کھانے کے لئے اسے ذبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ محتاط رہو! شیطان تمہاری قتل کو زائل نہ کر دے اور شیطانی افکار سے حیرت زدہ اور سرگردان نہ ہو جا ؤ۔[داستانها و پندها ۱/ ۹۲- كافي ۶/ ۳۷۰]
۔۔۔۔۔۔۔
1-سورة القصص؍٦٠۔
2-الفصول المهمة فی أصول الأئمة (تکملة الوسائل جلد۱،صفحه۱۱۵۔
3-داستانها و پندها ۱/ ۹۲-
4-كافي ۶/ ۳۷۰۔
Add new comment