علم سے مراد صَرف و نحو کی اصلاحات کو یاد کرنا نہیں بلکہ علم سے مراد یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے، معرفت و یقین حاصل کرے ایسے علم کی کوئی ضرورت نہیں جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، یا جس کے حاصل کرنے کے پیچھے بری نیّت کارفرما ہو مثلاً کوئی شخص اس لئے علم حاصل کرتا ہو کہ وہ اہل علم کے سامنے فخر و مباہات کر سکے تو ایسےعلم کا بھی کوئی فائدہ نہیں یا اگر کوئی شخص اس لئے علم حاصلکرتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے مال و دولت حاصل کرے گا تو اس علم کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے: وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ؛اور آپ کو ان تمام باتوں کا علم دے دیا ہے جن کا علم نہ تھا۔[سورہ نساء آیت 113]
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا يُحِبُّ الْعِلْمَ إِلَّا السَّعِيدُ؛سعادت مند شخص کے علاوہ کوئی اور علم سے محبت نہیں کرے گا۔[جامع السعادات 104/1۔]
خدا کو پہچانے اور اس کی شریعت جانے کے لئے علم بے حد ضروری ہے علم دنیا میں زینت ہے اور رضائے الٰہی تک پہنچنے میں مددگار و معاون ہے ، صاحب علم شخص کو یہ جان لینا چاہیے کہ علم کی کچھ باتیں انسان ایک ساعت میں حاصل کر لیتا ہے لیکن پوری زندگی ان پر عمل کرنا بے حد ضروری ہوجاتا ہے۔
لہذ اصرف علم حاصل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس پرعمل کرنا بہت اہم ہے کیونکہ عالم بے عمل کے متعلق خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں عالم کے عمل کو ستر سزائیں دوں گا، اس میں کم ترین سزا یہ ہے کہ میں اس کے دل سے اپنے ذکر کی مٹھاس ختم کر دوں گا جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے: أوحى اللّه ُ تبارك و تعالى إلى داوُودَ عليه السلام : إنَّ أهوَنَ ما أنا صانِعٌ بِعالِمٍ غَيرِ عامِلٍ بِعِلمِه أشَدُّ مِن سَبعينَ عُقوبَةً أن اُخرِجَ مِن قَلبهِ حَلاوَةَ ذِكري . [بحار الأنوار : 2/32/25 .]
علم سے مراد صَرف و نحو کی اصلاحات کو یاد کرنا نہیں بلکہ علم سے مراد یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے، معرفت و یقین حاصل کرے ایسے علم کی کوئی ضرورت نہیں جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، یا جس کے حاصل کرنے کے پیچھے بری نیّت کارفرما ہو مثلاً کوئی شخص اس لئے علم حاصل کرتا ہو کہ وہ اہل علم کے سامنے فخر و مباہات کر سکے تو ایسےعلم کا بھی کوئی فائدہ نہیں یا اگر کوئی شخص اس لئے علم حاصلکرتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے مال و دولت حاصل کرے گا تو اس علم کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔
مرحوم حاج شیخ عباس قمّی صاحبِ کتابِ "مفاتیح الجنان" فر ماتے ہیں کہ جب میں نے کتاب "منازل الآخرہ" تالیف کی اور شائع ہوئی تو وہ کتاب" شیخ عبد الرزاق مسالہ گو "کے ہاتھ پہنچی شیخ عبد الرزاق کا دستور تھا کہ وہ نماز ظہر سے قبل صحن معصومۂ قم(س) میں کھڑے ہوکر لوگوں کو مسائلِ دینی سے آگاہ کرتے تھے۔
شیخ عباس قمّیؒ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کر بلائی محمد رضا، شیخ عبدالرزاق کے عقیدت مند تھے وہ ان کی خدمت میں روزانہ حاضر ہوتے تھے اور شیخ عبد الرزاق روزانہ میری کتاب "منازل آلاخر" کھول کر ان میں سے مسائل ان کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔
ایک روز میرے والد محترم گھر آئے اور مجھ سے فرمایا: کاش! عباس تو بھی اس مسالہ گو کی طرح ہوتا اور جو آج اس نے ہمیں کتاب پڑھ کر سنائی ہے تو بھی میں وہ کتاب پڑھ کر سناسکتا۔
شیخ عباس قمّی کہتے ہیں کہ کئی بار میرے دل نے ارادہ کیا کہ میں اپنے والد محترم کو بتا دوں کہ یہ کتاب تو میری اپنی تالیف کردہ ہے لیکن میں نے یہ مناسب نہ سمجھا، صرف عرض کیا کہ ابو جان آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے توفیق عنایت کرے۔[سیمای فرزانگان، ص 153]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-سورہ نساء آیت 113
2-جامع السعادات 104/1۔
2-بحار الأنوار : 2/32/25 .
3-سیمای فرزانگان، ص 153۔
Add new comment