لغت میں لفظ «سکن» ہر اس چیز کے معنی میں ہے جس کے ذریعہ اور وسیلہ انسان کو چین و سکون فراھم ہو، گھر انسان کے قیام کی جگہ ہونے ساتھ ساتھ ذھنی سکون ، بعض سماجی قید و بند سے رہائی ، مرضی کے مطابق آرام کرنے ، خلوت گاہ ، محرموں اور خداوند متعال سے راز و نیاز کا مقام ہے کہ اگر کسی گھر میں یہ تمام چیزیں اور اوصاف موجود نہ ہوں تو وہ گھر ، گھر نہیں ہے ۔
ابتداء خلقت سے اج تک گھرانہ اہم ترین سماجی مرکز شمار کیا جاتا رہا ہے ، گھرانہ ہر ملک و سماج کی بنیاد و اساس اور ثقافت، تہذیب و انسانی تاریخ کا مرکز رہا ہے ، دین مبین اسلام نے بھی ابتداء ہی سے گھرانہ پر خصوصی توجہ رکھی ہے اور ہمیشہ مورد تاکید و تاکید قرار دیا ہے جیسا کہ قران کریم نے ارشاد فرمایا " وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ؛ اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے " (۱) یا رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا " تَنَاكَحُوا تَنَاسَلُوا تَكْثُرُوا فَإِنِّي أُبَاهِي بِكُمُ اَلْأُمَمَ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَ لَوْ بِالسِّقْطِ ؛ نکاح (شادی) کرو، نسلوں کو بڑھاو کہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کژت پر فخر و مباہات کروں گا ولو ساقط شدہ بچہ ہو ، (۲) یا دیگر ائمہ طاھرین علیھم السلام نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ "افضل الشفاعات ان تشفع بین اثنین فی نکاح یجمع الله بینهما ؛ بہترین وساطت یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان [ یا اسکے گھرانے و خاندان] کے درمیان وساطت کی جائے تاکہ دونوں کی شادی ہوسکے ۔ (۳)
دین اسلام نے انسان ساز مکتب ہونے کے لحاظ سے اس مقدس مرکز اور آغوش یعنی گھرانے کو انسانوں کی تربیت گاہ شمار کیا ہے ، انسان کی ترقی و اصلاح ، اس کی نابودی ، بربادی اور انحراف ، بڑھتے ہوئے دینی ماحول یا پھیلتے ہوئے فسادات اور برائیوں کو گھرانے سے متعلق جانا ہے ، لہذا گھرانے اور خانوادے کی تشکیل و تاسیس کا مقصد انسان کی جذباتی اور معنوی ضرورتیں پوری کرنا از جملہ سکون و آرامش ہے ، جیسا کہ قران کریم کا ارشاد ہے " وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ؛ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہواورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں" (۴)
قران میں لفظ "گھر" [بیت] کا استعمال اور اس کا مقام
لفظ "بیت" گھر مختلف شکلوں میں ۷۱ مرتبہ قران کریم میں استعمال ہوا ہے اور اس کی جمع "بیوت" ہے ، یہ لفظ ۱۲ مرتبہ "بیت اللہ" خدا کا گھر یعنی کعبہ ، ۲ مرتبہ "بیت عتیق" ، ۲ مرتبہ "بیت معمور" اور باقی گھر اور گھرانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، اس محترم اور مقدس مکان کے سلسلہ میں قران کریم میں مختلف تعبیریں ہیں کہ ہم یہاں پر کچھ کا تذکر کررہے ہیں ۔
چین و سکون کا مقام:
گھر کا پہلا استعمال اور فائدہ ، گھرانے کے افراد کو چین و سکون فراھم کرنا اور ان کے لئے ہر طرح کی امنیت کا اھتمام ہے ، گھر کی ولو چھوٹی اور محدود فضا جزبات و احساسات ، راز اور دل کی باتوں کو بیان کرنے کا مقام تو خواہشات کی تکمیل اور جسمانی و روحی ضرورتوں کی تامین کا مرکز ہے ، خداوند متعال نے قران کریم میں اس چین و سکون کو خود اپنی جانب منسوب کرتے ہوئے فرمایا « والله جعل لکم من بیوتکم سکناً ؛ اور اللہ ہی نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو وجہ سکون بنایا ہے » (۵)
لغت میں لفظ «سکن» ہر اس چیز کے معنی میں ہے جس کے ذریعہ اور وسیلہ انسان کو چین و سکون فراھم ہو، گھر انسان کے قیام کی جگہ ہونے ساتھ ساتھ ذھنی سکون ، بعض سماجی قید و بند سے رہائی ، مرضی کے مطابق آرام کرنے ، خلوت گاہ ، محرموں اور خداوند متعال سے راز و نیاز کا مقام ہے کہ اگر کسی گھر میں یہ تمام چیزیں اور اوصاف موجود نہ ہوں تو وہ گھر ، گھر نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ نور ، ایت ۳۲
۲: شعیری ، شیخ تاج الدین محمد ، جامع الأخبار، ج۱ ، ص ۱۰۱
۳: شیخ طوسی ، تهذیب، ج ۷، ص ۴۰۵
۴: قران کریم ، سوره الروم ، ایت ۲۱
۵: قران کریم ، سورہ نحل ، ایت ۸۱
Add new comment