شادی اور ازدواجی زندگی کی تشکیل میں دیگر دست و پا گیر مسائل و مشکلات کی طرح ایک مسئلہ کفو کا ہے ، اور حقیقت امر یہ ہے کہ اکثر عوامی طبقہ کفو کے صحیح مفھوم و معنی سے ناواقف اور لا علم ہے ، لوگ بہت ساری چیزوں کو اپنی شان وشوکت کی خصوصیت اور اپنا حق سمجھتے ہیں ، جن کی حیثیت تکلفات سے زیادہ نہیں ہے ، لڑکی والے کہتے ہیں کہ ہم اپنی بیٹی کی شادی کس طرح کریں کہ ہمیں ابھی تک کوئی ائڈٰیل لڑکا نہیں مل سکا یعنی مالدار ہو ، بڑا خاندان ہو ، زندگی کی تمام اسباب و وسائل فراھم ہوں نیز ذات پات جیسے دیگر خرافاتی مسائل ۔ بعض افراد اور خاندان اس طرح کے قیود و شرائط سے عاجز آچکے ہیں اور معاشرہ کو قصوروار ٹھراتے ہیں جبکہ اس بات سے غافل ہیں کہ اس طرح کا معاشرہ خود انہوں نے تشکیل دیا ہے ۔
اسلام میں کفو کا مطلب مال و دولت ، جاہ و منصب اور مادیت کی برابری نہیں ہے بلکہ اگر وہ افراد دینی و اخلاقی اعتبار سے برابر ہیں تو وہ ایک دوسرے کے کفو ہیں اور اسلام نے ایک دوسرے پر برتری کا معیار تقوائے الھی و پرھیزگاری رکھا ہے جیسا کہ قران کریم نے ارشاد فرمایا کہ «یا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلیمٌ خَبیرٌ؛ مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ حجرات ۔ ایت ۱۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Add new comment