شرح دعائے ماہ رمضان (۱۱)

Wed, 04/13/2022 - 04:55
گیارہویں رمضان کی دعا

بسم‌الله الرحمن الرحیم

" اَللّهُمَّ حَبِّبْ اِلَیَّ فیهِ الْاِحْسانَ وَکَرِّهْ اِلَیَّ فیهِ الْفُسُوقَ وَالْعِصْیانَ وَحَرِّمْ عَلَیَّ فیهِ السَّخَطَ وَالنّیرانَ بِعَوْنِکَ یا غِیاثَ الْمُسْتَغیثینَ "
خدایا اس دن احسان اور نیکی کو میرے لئے محبوب کردے، اور فسق اور فجور اور عصیان کو ناپسندیدہ کردے، اور اس میں مجھ پر غصہ اور جہنم کو حرام قرار دے، اپنی مدد سے اے فریاد کرنے والوں کے فریاد رس۔

آج کی دعا کے اہم ترین مطالب:

۱: نیکیوں کی محبوبیت کے ادراک کی طلب ۔

۲: فسق و فجور ، عصیان سے نفرت کا مطالبہ ۔

۳: خدا کی ناراضگی اور آتش جہنم سے دوری کی شدت سے خواہش ۔

۴: فریاد کرنے والوں کے فریاد رس مالک سے طلب اعانت  ۔

دعا کے پہلے فقرے میں لفظ احسان آیا ہے جسکے معنی نیکی کے ہیں اس "پوتر دھرتی" کا ایک بہت ہی عقلمند انسان بدھی مان شخص گزرا ہے جسکا نام تھا "آجاریے چاڑکیاں" وہ کہتا ہے کہ "نیتک اور آنےتک" یعنی نیکی اور بدی کی "پریبھاشا" وقت ، حالات، اور مقابل کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے بندگان خدا پر ظلم کر کے جس مال کو لوٹا گیا ہے اس مال کو لوٹ کر عوام تک پہنچانا  نیک عمل ہے اسی نظریہ کی جھلک یورپ کے مشہور فلسفی مکیا فلی میں بھی نظر آتی ہے وہ بھی ہی کہتا ہیکہ "الغاية تبرر الوسيلة" یعنی نیک مقصد کے لیے چنے جانے والا راستہ گرچہ غلط ہی کیوں نہ وہ برا نہیں ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں عمل خیر حاصل ہوا ہے  مثال کے طور پر بھوکے کو کھانا کھلانے کے لیے چوری کرنا جایز ہے  کیونکہ چوری کا راستہ برا ہے مگر بھوکے کو کھانا کھلانے کی غایت اس براءی کو ختم کردیتی ہے   ۔

جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے "حسن قبح اشیاء ذاتی ہیں" نیکی کے لیے راہیں بھی نیک ہونا چاہیے حسن عمل حسین وادیوں سے گزر کر انجام پزیر ہو تو قابل قبول ہے ورنہ شر کے سہارے سے خیر کو پھیلایا نہیں جا سکتا

اس دعا میں نیکی کی محبوبیت کو طلب کیا گیا ہے جبکہ نیکی فطرت و فراست کے آئینہ میں محبوب ہی ہوتی ہے مگر یہ طلب تحصیل حاصل نہیں ہے بلکہ بسا اوقات انسان کسی چیز کو نیک سمجھتا ہے گرچہ وہ حقیقت میں نیک نہیں ہوتی جسکی مثالیں تاریخ کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں خوارج کی سوج اور آج اسکا پنپ کر یہودیت اور وہابیت یا شدت پسند اندہ بھکتوں میں منتقل ہو جانا مسجد و مجلس میں دھامکے کرکے حرمت مساجد کی پاءیمالی ، طاقوں میں رکھے ہویے قرآنوں کو نذر آتش کرنا، اور اسکو جنت کی طلب سمجھنا  ہلاکت کو شہادت سمجھنا  قبل اس کے کی  ایسا سماج پروان چڑھے اس امت کو اس قسم کی دعا تعلیم کرنا نہایت ضروری تھا تاکہ بندہ کو نیکی کی محبوبیت کا ادراک رہے

دوسرا فقرہ؛ فسق و فجور اور عصیان و نافرمانی سے بچنے کی طلب ہے جب انسان گناہ کرتا ہے حکم رب کی نافرمانی کرتا ہے تو عاصی کہلاتا ہے اور جب اس گناہ کی تکرار کرتا ہے تو فاسق کہلاتا ہے فسق کے معنی ہیں ۔

" خروج الشی عن الشی علی وجہ الفساد" جب انسان گناہ پر اصرار و تکرار کرتا ہے تو وہ حدود شریعت سے خارج ہو جاتا ہے ۔

تیسرے فقرہ میں رب سے دعا ہے کہ مجھ سے آتش جہنم کو دور رکھ اور اپنی ناراضگی سے بجا اور اسکی ناراضگی اہل شعور کی نظر میں آتش دوزخ سے زیادہ بڑا عذاب ہے ۔

"الهي صبرت على نارك فكيف اصبر علي فراقك"

آخری فقرہ جس میں کہا گیا اے فریاد یوں کے داد رس یہ بندہ مومن کی دعا کا امتیاز ہیکہ آخری فقرہ اسکی محبت کے بھرپور حصول کےلیے پوری دعا کا لب لباب قرار دیا جاتا ہے ۔

رب دو جہاں ، محبوب کبریا ، ہماری دعاؤں کو مستجاب فرمایے آمین یا رب العالمین ۔

تحریر: گلزار جعفری
بانی ادارہ حبل المتین

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 51