ہم نے گذشتہ قسط میں دعائے ابوحمزه ثمالی کے فقرے « بِكَ عَرَفتُكَ وَ أنْتَ دَلَلْتَنِی عَلِیكَ وَ دَعوتَنِی إلَیكَ وَ لُولا أنْتَ لم أدْرِ مَا أنْت » کی شرح میں مفسر عصر عارف زمان حضرت ایت اللہ جوادی املی کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ دعا کا یہ جملہ بہت اہم اور کلیدی ہے اس سے خدا کی معرفت ، رحمت اور اس کے کرم کے صدیوں باب اور دروازے کھلتے ہیں ۔
جو لوگ خدا کی شناخت میں خلقت عالم اور دنیا میں موجود چیزوں سے مدد لیتے ہیں کیوں کہ دنیا خداوند متعال کی خلق کردہ ہے کہ جسے آیات آفاقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ مدد اور توجہ خود خدا کی خلق کردہ ہے لہذا امام علیہ السلام نے فرمایا بِكَ عَرَفتُكَ وَ أنْتَ دَلَلْتَنِی عَلِیكَ ؛ ہم نے خود تیرے وسیلے تجھے پہچانا اور تونے ہی ہمیں اس سمت ہدایت کی ہے ۔
اور وہ لوگ جو خدا کی شناخت میں انسان کے اندر موجود خدا کی نشانیوں یعنی آیات أنفسی کے وسیلہ خدا کو سمجھتے ہیں یہ توجہ خود اور عنایت بھی خود خدا کی خلق کردہ ہے، اور جو لوگ ان دونوں چیزوں کے وسیلہ یعنی آیات آفاقی و آیات انفسی کے وسیلے اس ذات کمال مطلق کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ بھی خدا کی عنایتوں کے ہی زیر سایہ ہیں ۔
البتہ کچھ ایسی ہستیاں بھی ہیں جو فقط آیات آفاقی یا فقط آیات أنفسی یا آیات آفاقی و آیات انفسی دونوں کو خدا کی شناخت کے لئے استفادہ نہیں کرتیں بلکہ وہ تمام چیزوں سے بالاتر ہیں اور وہ خدا کی ذات کو خود اسی کے ذریعہ پہنچاننا اور جاننا چاہتی ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ بِكَ عَرَفتُكَ وَ أنْتَ دَلَلْتَنِی عَلَیكْ ؛ یعنی خدایا ہم نے تجھے خود تجھ سے ہی پہچانا اور تو نے خود اس سمت ہماری ہدایت کی ہے ، جیسا کہ قران کریم کا ارشاد ہے أوَلَمْ یَكْفِ بِربكَ أنَّهُ عَلی كُلِّ شِیءٍ شَهِید ؛ کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شی کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے (۱) تا کہ دوسرے اس بات کو بخوبی سمجھ سکیں کہ خداوند متعال کی ذات حق ہے اسی لئے اس نے اپنی سمت لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کی ہے ، یہ وہ ہستیاں ہیں جو خدا کو خدا کے ذریعہ ہی پہچانتی ہیں انہیں جھان اور انسانوں کے اندر موجود نشانیوں یعنی آیات آفاقی و انفسی کی ضرورت نہیں ہے ، البتہ دونوں کا راستہ اور مقصد و منزل یعنی مَسلك و مَسلوكٌ إلیه ایک ہی ہے ۔
بعض روایتوں میں جناب یوسف اور ان کے بھائیوں کی داستان کے ذیل میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہیں کہ جسے صاحب تحفل العقول نے نقل کیا ہے، مذکورہ مطالب اور بیان کو سمجھے میں مددگار ہے ۔
روایت میں ذکر ہے ہوا ہے کہ شاهد کی معرفت اس کے اوصاف کی شناخت سے پہلے ہے یعنی ہمیں پہلے شاھد کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد اس کے صفات سے اگاہی اور اشنائی ہوتی ہے ، لیکن اگر کوئی غائب ہو تو پہلے اس کے صفات سے اگاہی حاصل ہوتی ہے اور پھر اس کی ذات سے اشنائی ہوتی ہے ، اس پوری حدیث کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ شاهد کی معرفت اس کے اوصاف کی شناخت سے پہلے ہے اور غائب کی ذات کی شناخت اس کے اوصاف کے بعد ہے ۔ بعد فرمایا کہ جناب یوسف کے بھائیوں نے پہلے جناب یوسف کو دیکھا اور پھر بعد میں انہیں پہچانا کیوں کہ ان کے بھائیوں نے یہ نہیں کہا کہ انت یوسف ؛ تم یوسف ہو بلکہ کہا کہ أأنْتَ یُوسُف ؛ کیا تم ہی یوسف ہو ؟
غَفَرَاللهُ لَنَا وَ لَكُمْ وَالسَّلامُ عَلِیكُمْ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرِكاتُه.
جاری ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ فصلت ، ایت ۵۴
Add new comment