تفسیر سورۂ یٰسین

Mon, 04/11/2022 - 07:56
سورہ یسین

(ماه رمضان میں روزانہ مختصر تفسیر)

ایات ۵ تا ۹

تَنْزِیلَ الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ ﴿٥﴾ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ﴿٦﴾ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَى أَکْثَرِهِمْ فَهُمْ لا یُؤْمِنُونَ ﴿٧﴾ إِنَّا جَعَلْنَا فِی أَعْنَاقِهِمْ أَغْلالا فَهِیَ إِلَى الأذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ ﴿٨﴾وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لا یُبْصِرُونَ ﴿٩﴾

خداوند عالم اپنے مخالفین کے اعتبار سے عزیز اور دوستوں کے حساب سے رحیم ہے، کیوں کہ قرآن مجید کے نازل ہونے کی بنیاد قدرت اور رحمت ہے جو قرآن مجید سے متمسک ہوتا ہے وہ عزت و رحمت حاصل کر لیتا ہے «تَنْزیلَ الْعَزیزِ الرَّحیمِ» ۔

پیغامات:

۔ انذار انبیائ کی بعثت کا مقصد ہے «لِتُنْذِرَ» ۔  

۔ انذار ایک خدائی سنت ہے ۔

«ما اُنْذِرَ ءاباؤُهُمْ». (اگر چہ اس کے باوجود  بھی لوگ گمراہ ہیں )

«اِذِ الْاَغْلالُ فی اَعْناقِهِمْ»

ان کی گردن میں زنجیر کا ڈالاجانا یہ آخرت کی سزاکی طرف اشارہ ہےجیسے آیہ کریمہ میں «اِذِ الْاَغْلالُ فی اَعْناقِهِمْ» سے مراد خرافات سے بھرے ہوئے عقائد ہیں جو بھاری زنجیروں کی کی طرح گردن میں پڑے ہوتے ہیں جیسے سورۂ اعراف کی ۱۵۷ویں آیت میں ارشاد ہوتاہے «وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلالَ الَّتی كانَتْ عَلَیْهِمْ»۔۔۔۔انبیا کی ذمہ داری ہےکہ بھاری زنجیروں کی طرح پڑے ہوئے خرافات کو ختم کریں جنہوں نے سماج کو جکڑ رکھا ہے یقیناً انبیا چاہتے ہیں کہ ان زنجیروں کو اتار دیں لیکن خود لوگ نہیں چاہتے ۔

سورۂ سجدہ کی ۱۳ ویں آیت جس میں ارشاد ہوتا ہے«وَلكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنّی لَاَمْلَاَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنّاسِ اَجْمَعینَ»۔۔۔۔۔القول سے مراد شیطان کا اتباع کرنے والوں کے لئے عذاب الٰہی کا حکم ہے ۔

۔ زیادہ تر غافل لوگ حق کی طرف رجحان نہیں رکھتے «فَهُمْ غافِلُونَ * لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلى اَكْثَرِهِمْ» ۔

۔ اکثریت کی مخالفت سے مبلغ کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے «اَكْثَرِهِمْ... لا یُؤْمِنُونَ» ۔

۔غفلت کفر کا پیش خیمہ ہے «فَهُمْ غافِلُونَ، فَهُمْ لا یُؤْمِنُونَ» ۔

قرآن مجید استوار اور محکم ہے اور پیغمبر اسلام ؐ کی رسالت حتمی اور یقینی ہے دین کا راستہ سیدھا اور خدا وند عالم قوی اور مہربان ہے اس کے باوجود اکثر لوگ غافل بے ایمان اور خرافات میں گرفتار ہیں وہ جدھر بھی جائیں اپنے سارے راستے بند دیکھتے ہیں ۔

من بین ایدیھم سدا سے مراد مستقبل کے لئے انسان کی لمبی لمبی آرزوئیں اور من خلفھم سدا سے مراد ماضی میں انجام دی جانے والی نافرمانیاں ہیں کہ یہ آرزوئیں اور غفلتیں حق کو دیکھنے کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں ۔

ان آیتوں میں دو بڑی گمراہیوں کے مقابلے میں دو بڑی سزائیں رکھی گئیں ہیں ۔ «فَهُمْ غافِلُونَ، فَهُمْ لا یُؤْمِنُونَ» بے ایمان ،غافل افراد نہ کفار کے ماضی سے عبرت حاصل کرتے ہیں ، خلفھم اور نہ اس معجزہ اور استدلال سے جو ان کے سامنے ہوتا ہے «مِنْ بَیْنِ اَیْدیهِمْ» ۔

انتخاب و ترجمہ
سید حمیدالحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع:
قرائتی، محسن، تفسیر نور ، ج ۷ (تفسیر سورہ یاسین)

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 31