اس سورت میں حضرت یونس(ع) کی داستان کا ذکر ہے اسی وجہ سے اس کا نام "سوره یونس" رکھا گیا ہے سوره یونس میں وحی، پیغمبر اکرم1 کا مقام، کائنات کی عظمت کی نشانیوں اور اس دنیا کی ناپایداری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آخرت کی طرف دعوت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس سورت میں طوفان نوح(ع)، حضرت موسیٰ(ع) اور قوم فرعون کی داستان کا بھی تذکرہ ہوا ہے ۔
10۔سوره یونس کا مختصر جائزه:اس سورت میں حضرت یونس(ع) کی داستان کا ذکر ہے اسی وجہ سے اس کا نام "سوره یونس" رکھا گیا ہے سوره یونس میں وحی، پیغمبر اکرم1 کا مقام، کائنات کی عظمت کی نشانیوں اور اس دنیا کی ناپایداری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آخرت کی طرف دعوت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس سورت میں طوفان نوح(ع)، حضرت موسیٰ(ع) اور قوم فرعون کی داستان کا بھی تذکرہ ہوا ہے ۔
آیت نمیر 38 اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہے جس میں پیغمبر اکرم1 کے مخالفین کو مقابلے کی دعوت دی گئی ہے کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو قرآن کی سورتوں میں سے کسی ایک سورت کی مثل لا کر دکھاؤ،کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے چیلنجز حقیقت میں قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل ہیں ۔
مضامین
سوره یونس میں خدا کی قدرت کے مظاہر، وجود خدا کو ثابت کرنے والے دلائل، وحی، نبوت اور بعثت انبیاء، آیات تکوینی اور علوم طبیعی، خلقت اور آفرینش کے اسرار و رموز اور دنیا اور آخرت کی حقیقت سے متعلق ایک تمثیل نیز دنیا کی ناپایداری کا ذکر کرتے ہوئے آخرت کی طرف دعوت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس سورت میں حضرت نوح، حضرت موسی اور حضرت یونسBجیسے انبیاء کی داستانوں کے بیان کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے مقام و منزلت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کائنات کی عظمت کی نشانیوں کو خدا کی عظمت پر دلیل قرار دیتے ہوئے ایمان اور عمل صالح کے ذریعے آخرت کی تیاری کی طرف ترغیب دینا بھی اس سورت میں بحث کی گئی موضوعات میں شامل ہیں اسی طرح بعض آیتوں میں بت پرستوں کی لجاجت اور ہٹ دھرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں ان کی فطرت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔
فضیلت
اس سورت کی فضیلت سے متعلق پیغمبر اسلام(ص)سے منقول ہے کہ جو شخص سورہ یونس کی تلاوت کرے خداوندعالم اس شخص کو حضرت یونس کی قوم اور فرعون کے ساتھ غرق ہونے والے افراد کے دس گنا حسنہ دے گا [1]۔۔ امام صادق(ع) سے بھی روایت ہے کہ جو شخص ہر دو یا تین مہینے میں ایک بار اس سورت کی تلاوت کرے اسے جاہلوں میں سے ہونے کا خوف نہیں رہے گا اور قیامت کے دن مقربین میں سے ہوگا[2]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۴۴۰۔
[2] عیاشی، التفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۱۱۹۔
Add new comment