ہماری دنیا ترقی کے ساتھ ساتھ بے شمار مشکلات و مسائل سے بھی روبرو ہے ، جس قدر ترقی میں تیزی ارہی ہے اسی قدر مشکلات کی قسمیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں، نئی بیماریوں کا سر ابھارنا ، کرونا جیسے جان لیوا مرض کا پھیلنا کہ جس نے علم و ٹیکنولوجی کی ترقی کو بھی مات دے دی اور دنیا نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ۔
ان تمام باتوں کی بنیاد بس ایک ہی چیز ہے اور وہ خدا سے دوری اور انسان کی خودسری !
انسان اس قدر اپنے علم کی قدرت و توانائی اور ٹیکنولوجی پر مغرور ہوچکا تھا کہ عمل اور دبی زبان میں ہی سہی خدا سے بے نیازی کا اعلان کرنے لگا تھا ، ظالم مظلوموں ، طاقتور کمزورں اور حکمراں اپنی رعایا کو بڑی اسانی کے ساتھ روند کر نکل جاتے تھے اور ان کے حقوق نگل جاتے تھے ، دنیا کے مختلف گوشہ میں جنگ و جدال اور قتل عام و خون و خونریزی کا دور دورہ تھا ۔
اس پرتشدد اور فتنہ پرور زمانہ اور دور میں اگر ہم تاریخ پہ نظر ڈالیں تو بخوبی ملے گا کہ سب سے زیادہ ظلم مسلمانوں خاص طور سے شیعوں پر ہوئے ہیں ، دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم شیعہ رہے ہیں جن کے اوپر ہر دور اور ہر زمانہ میں ظلم و ستم ہوتے رہے ہیں۔
اس مقام پر ایک سوال ہے کہ اتنے ظلم و ستم اور دشمنی کے باوجود، کس چیز اور کس طاقت نے ہمیں زندہ رکھ رکھا ہے اور ظالم سے مقابلہ کرنے کی ہمت دے رکھی ہے ؟
جواب دن کی طرح روشن اور واضح ہے کہ وہ ذات پردہ غیب میں موجود میرے امام (عج) کی ذات ہے، جو مسلسل اس بات کی یاد دہانی کراتی رہتی ہے کہ ہم شیعوں کا کوئی وارث ہے اور ہم لاوارث نہیں ہیں ، ایسا وارث جو ایک پل بھی ہم سے غافل نہیں ہوتا ، مستقل ہماری فکر میں رہتا ہے اور جیسا کہ امام (عج) نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا :
" اِنّا غَیْرُ مُهْمِلینَ لِمُراعاتِکُمْ، وَلا ناسینَ لِذَکْرِکُمْ، وَلَوْلا ذلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ الَّلاْواءُ وَاصْطَلَمَکُمُ الاْعْداءُ ؛ ہم نے تمہاری سرپرستی اور مدد میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور تمہیں بھولے بھی نہیں ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو تم مشکلات اور پریشانیوں میں گھر جاتے اور دشمن تم کو ہلاک و نابود کر دیتے "۔ (۱)
یقینا میرا امام تو مجھے یاد رکھتا ہے مگر کیا ہم بھی ان کی طرح انہیں یاد رکھتے ہیں اور ان کے ظہور کے لئے کتنی دعائیں کرتے ہیں ؟ جب کہ پیغمبر اکرم(ع) نے فرمایا کہ: أَفْضَلُ أَعْمَالِ أُمَّتِي اِنْتِظَارُ اَلْفَرَجِ مِنَ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ؛ خدا کی طرف سے میری امت کے لئے بہترین عمل انتظار فرج(ظہور امام زمانہ علیہ السلام) ہے"۔ (۲)
کبھی ہم سب کو اپنے دل کی طرف رجوع کرنا چاہئے کہ ہمارا اپنے غائب امام (عج) سے کتنا رابطہ ہے اور کیسا کہ رابطہ ہے ؟ وہ امام جو ہمہ وقت ہماری جان و مال و ناموس کی حفاظت میں کوشاں ، ہمارے لئے دعا گو اور اس کی دعائیں ہمارے لئے حلال مشکلات ہیں ۔ وہ مولا (عج) جو ہمارا خیر خواہ اور سخت سے سخت گھڑی میں ہمارا مونس و ہمدم ہے ۔
ہمیں اپنے اس امام (عج) کے لئے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہیں کیوں کہ وہ ہمارا صاحب و مالک اور ہمارا ولی نعمت ہے ، جس کے با برکت وجود سے ہمارا وجود ہے ، جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "لَوْ بَقِيَتِ اَلْأَرْضُ يَوْماً وَاحِداً بِلاَ إِمَامٍ مِنَّا لَسَاخَتِ اَلْأَرْضُ بِأَهْلِهَا، وَ لَعَذَّبَهُمُ اَللَّهُ بِأَشَدِّ عَذَابِهِ، وَ ذَلِكَ أَنَّ اَللَّهَ جَعَلَنَا حُجَّةً فِي أَرْضِهِ وَ أَمَاناً فِي اَلْأَرْضِ لِأَهْلِ اَلْأَرْض؛ اگر زمین ایک دن بھی ہم اماموں کے بغیر رہ جائے تو اپنے اہل کے ساتھ دھنس جائے گی اور خدا ان کے اوپر شدید عذاب نازل کرے گا، بے شک خدا نے ہمیں زمین پہ حجت اور اہل زمین کے لئے امان قرار دیا ہے"۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: احتجاج برسی ج2 ص497 ناشر- نشر مرتضی مشہد
۲: کمال الدین و تمام النعمة ج 2 ص 644 ناشر- اسلامیہ تہران
۳: دلائل الامامة ص 436 ناشر- بعثت قم
Add new comment