حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
إنّ اللّه َجلَّ ثناؤهُ لَيَعتَذِرُ إلى عَبدِهِ المؤمنِ المُحْوِجِ في الدنيا كما يَعتَذِرُ الأخُ إلى أخيهِ ، فيَقولُ : وعِزَّتي وجَلالي ، ما أحوَجتُكَ في الدنيا مِن هَوانٍ كانَ بِكَ عَلَيَّ ، فارفَعْ هذا السَّجْفَ فانظُرْ إلى ما عَوَّضتُكَ مِن الدنيا . قالَ : فَيَرفَعُ فيَقولُ : ما ضَرَّني ما مَنَعتَني مع ما عَوَّضتَني ؟ (۱)
بے شک پروردگار عالم قیامت کے دن اپنے فقیر مؤمن بندوں سے دنیا میں ان کے فقر کی وجہ سے عذر خواہی فرمائے گا کہ جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی سے عذر خواہی کرتا ہے اور کہے گا میری عزت و جلالت کی قسم، میں نے دنیا میں تجھے حقارت اور بی حیثیت ہونے کی وجہ سے محتاج نہیں بنایا ۔ اور اب اپنے چہرہ سے نقاب اٹھا اور دیکھ کہ دنیا کے بدلے میں نے تجھے کیا دیا ہے ، بندہ اپنے چہرہ سے نقاب ہٹائے گا اور بے ساختہ کہے گا خدایا ! تو نے دنیا کے بدلے جو کچھ بھی مجھے یہاں عطا کیا ہے میں نے دنیا میں کوئی نقصان اور گھاٹا نہیں اٹھایا ۔
مختصر تشریح:
اس حدیث شریفہ میں خدا کی عذر خواھی سے مراد مومن بندہ کی دلجوئی ہے ، خداوند متعال کی ذات گرامی تو رازق کل شـــئی ہے یعنی سب کا رزق اس کے یہاں محفوظ ہے مگر کچھ مومنین، فرعون و ہامان و نمرود و قارون صفت حریص اور بخیل انسانوں کے ظلم و ستم سے مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ، دین اسلام کی جانب سے معین کردہ خمس و زکات و صدقات جیسی شرعی رقومات کہ جو فقیر مومنین کا حق ہے وہ کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے فقیر اور نادار مومنین کی زندگی تنگدستی کا شکار ہوجاتی ہے ۔ خداوند متعال اسی کے بدلے ان مومنین کو بھشت میں اعلی ترین مرتبہ عطا کرے گا ۔
اور دوسری جانب وہ ظالم اور ستمکار لوگ جو خدا کے مخلص بندوں کا رزق اپنے ظلم و ستم اور حرص و لالچ کی وجہ سے چھین لیتے ہیں اور دوسروں کا حق غصب کر کے خود چین وسکون کی زندگی بسر کرتے ہیں یقینا ایسے لوگ قیامت میں خسارہ اور گھاٹا اٹھائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱ـ کلینی، اصول کافی ، ج ، 2 ص 246 ، حدیث 18 ۔ و منتخب میزان الحکمة، صفحه 452
Add new comment