یقین

Wed, 03/09/2022 - 07:18

اہل ایمان بھی یقین کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جس کا یقین زیادہ ہو گا اس میں اتنا زیادہ ہی صبر کی قوت ہوگی ، اور ظاہر و باطن میں اطاعت خداوندی بجا لائے گا اور جس کے یقین میں جتنی کمی ہوگی وہ اتنا ہی خداوند کی نافرمانی میں مشغول ہوتا جائے گا اور وہ لوگ جن میں یقین کی کمی ہوتی ہے ان کے دل ہمیشہ اسباب دنیا سے وابستہ رہتے ہیں، اگر وہ عبادت بھی کریں تو اس میں بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اور ایسے لوگ ہمیشہ زر و دولت اور منصب حاصل کر نے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔

یقین

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے: وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ [۱] آپ اپنے رب کی عبادت کریں یہاں تک کہ آپ کو یقین (موت) آ جائے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا: قل ما اوتيتم اليقين و عزيمۃ الصبر، تمہیں یقین اور قوت صبر بہت قلیل ترین مقدار میں دی گئی ہے۔[۲]۔

انبیاء کرام(ع) کے درجات مختلف ہیں اور ان در جات کے اختلاف کی وجہ مراتب یقین کا اختلاف ہے، جتنا جس کے یقین کا مرتبہ ز یا دہ تھاخداوند تعالیٰ نے ان کو اتنا زیا دہ درجات عطا کئے ۔

رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام پانی پر چلا کرتے تھے آپ نے فرمایا اگر حضرت عیسیٰ (ع)کا یقین اس سے بھی زیادہ ہوتا تو وہ ہواؤں میں پرواز کرتے۔

اہل ایمان بھی یقین کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جس کا یقین زیادہ ہو گا اس میں اتنا زیادہ ہی صبر کی قوت ہوگی ، اور ظاہر و باطن میں اطاعت خداوندی بجا لائے گا اور جس کے یقین میں جتنی کمی ہوگی وہ اتنا ہی خداوند کی نافرمانی میں مشغول ہوتا جائے گا اور وہ لوگ جن میں یقین کی کمی ہوتی ہے ان کے دل ہمیشہ اسباب دنیا سے وابستہ رہتے ہیں، اگر وہ عبادت بھی کریں تو اس میں بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اور ایسے لوگ ہمیشہ زر و دولت اور منصب حاصل کر نے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ [۳]

محمد بن بشیر حضری کا یقین :

شب عاشور بی بی زینب سلام اللہ علیھا نے حضرت امام حسین علیہ السلام سے عرض کی :”بھائی جان ! کیا آپ کے اصحاب آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ امام علیہ السلام نے فرمایا: "نہیں خدا کی قسم میں ان کا امتحان لے چکا ہوں وہ شہادت کے خواہش مند ہیں اور ان کو موت سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ ایک شیر خوار بچے کو ماں کے پستانوں سے ہوتی ہے۔

شب عاشور حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا اور ہر ایک صحابی سے فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی بھی جانا چاہے تو جا سکتا ہے ، لیکن آپ کے صحابہ نے جانے سے انکار کر دیا ، اس کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے صحابہ کو جنت میں ان کے مقامات دکھائے جس کی وجہ سے ان کےیقین میں اتنا اضافہ ہوا کہ یوم عاشور انہیں نیزہ اور شمشیر کی وجہ سے درد کا احساس تک نہ ہوا۔

شب عاشورہ ہی کا واقعہ ہے کہ امام علیہ السلام کے ایک ساتھی محمد بن بشیر حضری کو اطلاع ملی کہ اس کا بیٹا گر فتار ہو چکا ہے تو امام حسین علیہ السلام نے جیسے ہی یہ خبر سنی تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا کہ محمدبن بشیر ! تمہارا بیٹا سرحدی علاقوں میں گرفتار ہو چکا ہے لہذا تمہاری گردن سے میں اپنی بیعت کا قلا دہ اتارتا ہوں اور تم کر بلا سے چلے جاؤ اور اپنے بیٹے کی رہائی کا انتظام کرو۔

جب محمد بن بشیر نے امام عالی مقام کا یہ کلام سنا تو کہنے لگا:’خدا آپ پر رحمت کرنے میں اپنی بیعت کبھی ختم نہیں کروں گا، میں اگر آپ کو چھوڑ کر جاؤں تو خدا کرے

کہ جنگل کے درندے مجھے کھا جائیں، میں آپ سے دور جانا کبھی پسند نہیں کرونگا۔ اس کے بعد امام علیہ اسلام نے اپنے قیمتی جوڑے اس کے حوالے کئے اور فرمایا کہ ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتے تو نہ جاؤ لیکن اپنے دوسرے بیٹے کو یہ جوڑے دے کر روانہ کرو تا کہ وہ انہیں فروخت کر کے اپنے بھائی کی رہائی کا بندوبست کرے۔

 مورخین کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک جوڑے کی قیمت ایک ہزار دینار تھی۔

اپنے مولا وآقا پر اس درجہ یقین رکھنے والے محمد بن بشیر حملۂ اول میں درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ [۴]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱:  قران کریم ، سورۂ حجر آیت 99
۲: جامع السعادات 119/1 
۳: تذکرۃ الحقائق ص 87
۴: منتہیٰ الامال 340/1

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 68