امام زین العابدین علیہ السلام کا اسم گرامی علی ابن حسین علیہما السلام تھا آپ آئمہ اطہار علیھم السلام کی چوتھی فرد تھے ، آپ کے جد بزرگوار امیرالمومنین مولائے کائنات حضرت علی ابن ابیطالب تھے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ولی برحق اور آپ کی رسالت پر سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ ان کی حیثیت اور منزلت پیغمبر اسلام (ص) کے نزدیک وہی تھی جو جناب موسیٰ (ع) کے نزدیک جناب ہارون کی تھی جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) سے مردی صحیح حدیث میں وار د ہوا ہے ۔ (۱)
امام زین العابدین کی جدہ ماجدہ بنت رسول جناب فاطمہ زہرا (س) تھیں جن کو پیغمبر اسلام کی زبان حق ترجمان نے اپنی رسالت کا جزء اپنے جگر کا ٹکڑا اور کائنات کی عورتوں کا سردار قرار دیا ہے ، آپ کے والد ماجد سرکارسید الشہداء (ع) جوانان جنت کے سردار، باغ گلستان نبوت کے پھول ، نواسہ رسو ل (ص) امام حسین (ع) تھے، جن کے بارے میں آپ کے جد امجد پیغمبراسلام (ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ حسین منی و انا من الحسین؛ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘ آپ نے عاشور کے دن کربلا کے میدان میں اسلام اور امت اسلامیہ کی ناموس کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔
آپ ان بارہ اماموں کے سلسلہ امامت کی ایک کڑی تھے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام(ص) نے واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا جیسا کہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہے ’’الخلفا بعدی اثنا عشر کلھم من قریش ؛ میرے بعد ۱۲ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش میں ہوں گے ‘‘ ۔ (۲)
امام زین العابدین علی ابن الحسین علیہما السلام کی ولادت باسعادت ۳۸ھجری قمری میں ہوئی اگرچہ ایک قول کے مطابق آپ کی ولادت ۳۸ھجری قمری سے ایک یا دو سال پہلے ہوئی۔
آپ کی عمر مبارک تقریباً ۵۷ سال تھی ، تقریباً دو سال یا بہ اختلاف روایت چار سال اپنے جد امجد مولائے کائنات امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالب (ع) کے سایہ تربیت میں بسر کئے اس کے بعد اپنے چچا امام حسن اور والد گرامی امام حسین علیھما السلام کے زیر سایہ پروان چڑھے اور پیغمبراسلام (ص) کے ان دونوں نواسوں کے ذریعہ آپ کی نورانی تعلیمات سے بہرہ مند ہوکردریائے علوم اہل بیت طاہرین علیہم السلام میں غوطہ زن ہوئے۔
اس طرح آپ کی شخصیت علمی میدان میں دین و دیانت کی امام ، علم ومعرفت کے بلند وبالا منارہ، احکام شریعت اور علوم اسلامی میں مرجع خلائق، زہد و ورع اور عبادت وپرہیزگاری میں نمونے کے طور پر نکھر کر سامنے آئی۔
دنیا کے تمام مسلمان آپ کے علم ، استقامت اور سب سے افضل ہونے کا اعتراف کرتے ہیں اور ان میں سے حقائق کی تلاش میں جد و جہد کرنے والے آپ کی سخاوت و فقاہت اور علمی برتری کے سامنے سرتعظیم خم کرتے ہیں اوردین و دنیا کےتمام مسائل میں آپ کومرجع خلائق سمجھتے ہیں۔
دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہمارے چوتھے امام زین العابدین (ع) -سے ایک خاص قسم کا جذباتی لگائو اور ایک انتہائی گہرا روحانی رابطہ تھا ، آپ کی کوششوں کے ذریعہ قوم و ملت کی تعلیم و تربیت کے اصول و ضوابط سے پوری دنیائے اسلام متعارف تھی اور ہرجگہ آپ کی علمی ہیبت اور وقار کے چرچے تھے جس کا ایک نمونہ حج بیت اللہ کے موقعہ پر اس وقت دیکھنے میں آیا جب آپ حجر اسود کا بوسہ دینے کے لئے آگے بڑھے تو سارا مجمع کائی کی طرح چھٹ گیا ، اس سال ہشام ابن عبدالملک نے بھی حج کیا تھا وہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا ۔(٣)
اس زمانے کے افراد اپنے مختلف عقائد ونظریات اور الگ الگ رجحانات کے باوجود آپ پر مکمل اعتماد کرتے تھے اور ان کا یہ اعتماد صرف فقہی یا معنوی جہت سے نہیں تھا بلکہ وہ آپ کے پاکیزہ آباء و اجداد کی طرح آپ کی مرجعیت وقیادت پر ایمان رکھتے تھے اورزندگی میں ہر قسم کے مشکل حالات میں آپ کواپنی پناہ گاہ سمجھتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ عبدالملک ابن مروان نے اسلامی مملکت میں رومی سکہ کے رواج پر درپیش مشکل کو حل کرنے کے لئے آپ کا سہارالیا جس میں رومی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی دھمکی دی گئی تھی ۔(۴)
امام زین العابدین (ع) نے اپنے والد بزرگوار سرکار سید الشہداء (ع) کی شہادت کے بعد امت اسلامی کی روحانی اور معنوی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی اور پہلی صدی ہجری کے دوسرے نصف حصہ میں امت اسلامی کودرپیش تمام مشکل مراحل میں اس ذ مہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا، تاریخ کا یہ دور ایک انتہائی حساس دورتھا جس میں اس وقت کے اسلامی سماج پر لشکر اسلام کی عظیم فتوحات کے امنڈتے ہوئے سیلاب کا گہرا اثر تھا جس سیلاب نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی عظیم ایمانی اور اعتقادی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر اپنے منظم عسکر ی نظام کے ساتھ قیصر و کسریٰ جیسی اس وقت کی بڑی استعماری طاقتوں کے تخت و تاج کو مسمار کرکے دنیا کی مختلف طاقتوں کو اسلام کے اس نئے پیغام کے پرچم تلے لاکر کھڑاکردیا تھااور ان پچاس سالوں میں مسلمان اس وقت کی متمدن دنیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہوکر اس کی قیادت کی ذمہ داری سنبھال چکے تھے۔
تحریر: مولانا سید حمید الحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور ھند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: صحیح مسلم،ج/۷،ص/۱۲۱
۲: اثبات الہداۃ ،ج/۲ص/۳۲۰،حدیث/۱۱۶۔
۳: اختیارمعرفۃالرجال،/۱۲۹،۱۳۲،ح/۲۰۷، و الجاحظ فی البیان والتبین، ج/۱، ص/۳۸۶، الاغانی الاغانی ،ج/۱۴،ص / ۷۵، ح/۱۹،۴۰ ووفیات الاعیان،ج/۲،۳۳۸،طبع ایران)
۴: دراسات وبحوث للعاملی،/۱،۱۲۷تا۱۳۷۔
Add new comment