امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنَّ اَجوَدَ النّاسِ مَن اَعطی مَن لا یَرجوهُ ۔ (1)
سب سے بڑا سخی وہ ہے جو ایسے کو عطا کرے جسے عطا اور بخشش کی امید نہ ہو۔
مختصر تشریخ:
سخاوت مومن کی خصوصیات اورعلامتوں میں سے ایک علامت ہیں، لہذا جو مومن ہوگا اس میں بخل و کنجوسی نہیں پائی جائے گی، البتہ سخاوت کے بھی مراتب و درجات ہیں :
پہلا درجہ: یہ ہے کہ مانگنے کے بعد کسی کو عطا کیا جائے یہ سخاوت کا سب سے نیچلا درجہ ہے۔
دوسرا درجہ: یہ ہے کہ کوئی کسی سے عطا و بخشش کی امید رکھتا ہو اور وہ اسے عطا کرے تو یہ سخاوت کا معمولی درجہ ہے۔
تیسرا درجہ: یہ ہے کہ کوئی کسی شخص کو بغیر مانگے عطا کردے تو یہ سخاوت کا اعلیٰ درجہ ہے کہ جس کا اللہ کے نزدیک عالی مقام ہے۔
چوتھا درجہ: یہ ہے کہ کوئی انسان کسی سے بخشش اور عطا کی امید نہ رکھتا ہو اور وہ شخص اسے عطا کردے تو یہ سخاوت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے اور اس انسان سے زیادہ سخی کوئی انسان نہیں۔
نتیجہ:
اگر مومن سخاوت کرے، کسی کو کچھ عطا کرے تو اس میں کسی طرح کا دکھاوا اور ریا کاری نہیں ہونی چاہئے بلکہ لوگوں کو اس طرح عطا کرے کہ اس کی عطا و بخشش سے صرف وہ اور اس کا پروردگار ہی واقف ہو، جیسا کہ قران کریم کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ۔ (2)
اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1: مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار، ج 44 ، ص 121
2: قران کریم ، سورہ بقرۃ ، ایت 264
Add new comment