امام حسین اور قیام کی بنیاد

Wed, 03/02/2022 - 09:23
امام حسین

معاویہ کی موت کے بعد یزید ملعون نے مدینہ کے حاکم ولید کو خط لکھا کہ وہ فورا امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے لے اور جب ولید نے شب کے سنٹاے میں حضرت (ع) کو بلا بھیجا تو حضرت (ع) اگلے دن پر فیصلہ ٹال کر دربار سے باہر نکل آئے اور مروان کے اصرار کے باوجود ولید نے حضرت (ع) کو جانے سے نہ روکا ۔

دوسرے دن جب مروان کی امام حسین (ع) سے راستہ میں ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ میں اپکو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں اس شرط پر کہ اپ اسے قبول فرمائیں گے تو حضرت (ع) نے فرمایا تمھاری نصیحت کیا ہے ؟ مروان نے جواب میں کہا اپ سے کہہ رہا ہوں کہ اپ امیرالمومنین یزید [ملعون] کی بیعت کرلیں کہ یہ بیعت اپ کی دنیا اور اخرت دونوں کے حق میں بہتر ہے ۔  

حضرت نے اپنی ناراضگی کا اظھار کرتے ہوئے جواب میں فرمایا : «اِنَّ لِلَّهِ وَاِنَّا اِلَیهِ راجِعُون ، عَلَی الْاِسْلامِ السَّلامُ اِذْ بُلِیتِ الْاُمَّةُ بِراعٍ مِثْلَ یزِیدَ وَیحَک یا مَرْوانَ اَتَاْمُرُنِی بِبَیعَةِ یزِیدَ وَهُوَ رَجُلٌ فاسِقٌ۔ (۱)

جب رسول (ص) کی امت یزید ملعون جیسے [فاسد] کی حکمراںی میں گرفتار ہوجائے تو ایسے اسلام کا فاتحہ پڑھ دینا چاہئے ، تف ہو تجھ پر اے مروان کہ تو مجھے یزید ملعون کی بیعت کا حکم دے رہا ہے جبکہ وہ ایک فاسق انسان ہے  ۔ !

پھر حضرت (ع) نے فرمایا: تو ایسی بیہودہ باتیں کیوں کررہا ہے ؟ البتہ میں تجھے ملامت نہیں کروں گا کیوں کہ تو وہی انسان ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآلہ وسلم نے جب تو اپنے باپ حکم بن العاص کی صلب میں تھا تو لعنت کی تھی ۔

پھر حضرت (ع) نے فرمایا : دور ہو دشمن خدا ، ہم اھل بیت رسول خدا (ص) ہیں اور حق ہمارے ساتھ اور ہمارے درمیان ہے ، ہماری زبان حق سے سوا کچھ نہیں بولے گی ، میں نے خود رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ انحضرت (ص) نے فرمایا « ابوسفیان کے بچوں اور ان کی نسل پر خلاف حرام ہے » اور انحضرت (ص) نے پھر فرمایا : « اگر معاویہ کو منبر کے اوپر دیکھو تو بغیر تامل کئے اس کا پیٹ پھاڑ دینا ۔ » خدا کی قسم مدینہ والوں نے اسے [معاویہ کو] میرے جدآ رسول خدا (ص) کے منبر پر دیکھا مگر انہوں نے اپ (ص) کے حکم پر عمل نہ کیا ۔»  

اس زمانے کے حالات کو امام حسین (ع) کی مختلف تقریروں اور خطاب سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ زمانہ کتنا بدل گیا تھا، حر ابن ریاحی نے جب کربلا کے راستہ میں "ذوحُسَمْ" کے مقام پر حضرت (ع) کے قافلہ کو روکا تو حضرت (ع) نے حر اور اس کے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا :

سَاَمْضِی وَما بِالْمَوْتِ عارٌ عَلَی الْفَتی
|اِذا ما نَوی حَقّاً وَجاهَدَ مُسْلِماً   (۲)

میں جا رہا ہوں اور موت جواں مرد کیلئے شرم نہیں ، بشرطیکہ خدا کی راہ میں اور خلوص کے ہمراہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مناقب ابن شهر آشوب، قم، علّامہ پبلیشر، ج 4، ص 88؛ ارشاد شیخ مفید، قم، آل البیت پبلیشر،ج 2، ص 33.
۲: «وَیْحَکَ! أَتَأْمُرُنی بِبَیْعَةِ یَزیدَ وَ هُوَ رَجُلٌ فاسِقٌ! لَقَدْ قُلْتَ شَطَطاً مِنَ الْقَوْلِ یا عَظیمَ الزُّلَلِ! لا أَلُومُکَ عَلى قَوْلِکَ لاِنَّکَ اللَّعینُ الَّذی لَعَنَکَ رَسُولُ اللّهِ(صلى الله علیه وآله) وَأَنْتَ فی صُلْبِ أَبیکَ الْحَکَمِ بْنِ أَبی الْعاصِ، فَإِنَّ مَنْ لَعَنَهُ رَسُولُ اللّهِ(صلى الله علیه وآله)لا یُمْکِنُ لَهُ وَ لا مِنْهُ إِلاّ أَنْ یَدْعُوَ اِلى بَیْعَةِ یَزیدَ».
۳: إِلَیْکَ عَنِّی یا عَدُوَّ اللّهِ! فَإِنّا أَهْلُ بَیْتِ رَسُولِ اللّهِ(صلى الله علیه وآله) وَ الْحَقُّ فینا وَ بِالْحَقِّ تَنْطِقُ أَلْسِنَتُنا، وَ قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ(صلى الله علیه وآله) یَقُولُ: «اَلْخِلاَفَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلى آلِ أبی سُفْیانَ، وَ عَلى الطُّلَقاءِ أَبْناءِ الطُّلَقاءِ؛
۴: تاریخ    کامل ابن اثیر، ج 4، ص 48 ،   قصۂ کربلا، ص 196 ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 16 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 40