پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی رسالت کے دفاع میں جناب ابوطالب (س) کے اقدامات اور ان کے موقف کی نثر اور نظم دونوں اصںاف سخن میں صراحت ہے جس کے بیان سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص) سے جناب ابوطالب (س) کی محبت اور آپ کے سلسلے میں ان کے ایمانی موقف کو واضح کرنے کے لئے ہم یہاں پر ان کے بعض اشعار کا ترجمہ پیش کریں گےجو آپ نے نظم فرمائے ہیں ۔
اے ہمارے حق میں خدا کی طرف سے گواہ گواہی دے کہ میں نبی خدا احمد (ص) کے دین مبین پر ہوں
ایک دوسرے شعر میں آپ کہتے ہیں خدا کی قسم میں آپ تک کفار کی جماعت نہیں پہنچنے دوں گا یہاں تک کہ میں مٹی کے نیچے دفن ہوجاؤں ۔
اور جب کفار مکہ نے اپ (س) سے کہا کہ محمد (ص) کو ان کے حوالہ کردیں تو اپ (س) نے رسول اسلام (ص) کو خطاب کرتے فرمایا : اپنے کام کو مضبوطی سے آگے بڑھائے اور اپ کے اوپر کوئی پابندی نہیں ہے اپ کے لئے اس کام کی کامیابی کی بشارت ہے اور اپکی آنکھیں ٹھنڈی رہیں ، میں جانتا ہوں کہ محمد (ص) بشریت کے لئے آنے والے تمام دینوں سے بہتر ہے. «ألم تعلموا أنّا وجدنا محمداً رسولا کموسى خط فی أولّ الکتب "
کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ میں نے محمد کو اللہ کے نبی موسی کی طرح پایا ہے
اسی طرح جناب ابوطالب (س) کی جانب سے پیغمبر اسلام (ص) کی حمایت اور آپ کے دفاع کا وہ موقع ہے جب قریش نے اللہ کے رسول پر اوجهڑی اور دیگر گندی چیزیں پھیکیں آپ نے اس موقعہ پر سب کفار کو جمع کیا اور ان کی داڑھیوں کو پکڑ کر انہیں خون آلود کرتے ہوئے اللہ کے رسول نے فرمایا کہ آپ پیغمبر خدا محمد (ص) سید و سردار اور نیک افراد کی اولاد ہیں وہ بھی پاکیزہ تھے اور آپ کی ولادت پاکیزہ ہے ۔
اپ ہمیشہ صحیح اور حق کے راستے پر چلنے والے ہیں باوجود اس کے کہ ابھی بچے ہیں
جناب ابوطالب (س) نے اپنے بیثے اور حضور کے چچا زاد بھائی حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ تمھیں چاہئے کہ ہمیشہ اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کھڑے رہو اس کے اپ نے فرمایا : اے علی (ع) اور جعفر تم ہمارے معتمد ہو جب زمانے کے حالات ستائیں اور مصیبتوں کے دن آئیں تو تم دونوں محمد مصطفی (ص) کو تنہا نہ چھوڑنا اور ان کی مدد کرنا ان کے والد میرے مادری اور پدری سگے بھائی ہیں ۔
خدا کی گا قسم میں نے نبی کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا اور نہ ان کے اعلی خاندان کے افراد ہی انھیں چھوڑیں گے ۔
ان کا عظیم موقف اس وقت بھی واضح ہوا جب ان کے بیٹے علی ابن ابی طالب علیہ السلام شعب ابو طالب میں ان کے بستر پر سوتے تھے تا کہ اللہ کے رسول حضرت محمد (ص) کی حفاظت کرسکیں ۔
آپ کا یہ برتاؤ کسی نسبی رابطہ کی بنیاد پر پر نہیں تھا آپ نے اپنے بیٹے حضرت (ع) سے فرمایا تھا میرے بیٹے صبر کرو صبر زندہ متحرک انسان کے لیے بہتر ہے میں نے اپنی پوری کوشش اپنے حبیب بن حبیب کی جان کی حفاظت کے لئے صرف کردی حضرت (ع) نے جواب دیا میں اپنی پوری کوشش بھی حضرت محمد مصطفی (ص) کی حمایت میں صرف کر دوں گا ۔
تحریر: سید حمید الحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
Add new comment