انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد

Mon, 02/28/2022 - 11:16

امیر المومنین علی(ع) کا نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں بیان مندرج ہے جہاں زمین و آسمان اور روئے زمین پر  انسان کی تخلیق کا ذکر ہےوہیں اس کے بعد  نبیوں اور رسولوں کی آمد کی حکمت کا مسئلہ اٹھایا گیا ہےاور اس موضوع کے ضمن میں عَالَمِ نفس اور عقل کی اسراز آمیز دنیا اور انسانی روح کا ذکر ملتا ہے جو کہ بہت ہی زیادہ توجہ طلب اور قابل اہمیت موضوع ہے۔

انبیاءؑ کی بعثت کا بنیادی مقصد

امیر المومنین علی(ع) نے ایک تفصیلی خطبہ میں زمین و آسمان کی تخلیق اور زمین پر انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد نبیوں اور رسولوں کی آمد کی حکمت کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ  انبیاء کی  بعثت کا بنیادی مقصد کیا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں:« فَبَعَثَ فِیْهمْ رُسُلَهٗ، وَ وَاتَرَ اِلَیْهِمْ اَنْۢبِیَآئَهٗ، لِیَسْتَاْدُوْهُمْ مِیْثَاقَ فِطْرَتِهٖ، وَ یُذَكِّرُوْهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهٖ، ...وَ یُثِیْرُوْا لَهُمْ دَفَآئِنَ الْعُقُوْلِ»([1])۔اللہ نے ان میں اپنے رسولؑ مبعوث کئے اور لگاتار انبیاءؑ بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیں، اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں، عقل کے دفینوں کو ابھاریں ۔

 یعنی خدا نے بنی نوع انسانی میں پیغمبروں کا بھیجا اور انہیں ایک کے بعد ایک بھیجتا رہا تاکہ انسانی فطرت میں موجود عہد  و پیمان کو وہ  پورا کریں اور انہیں خدا کی بھولی ہوئی نعمتوں  کی ہاد آوری کریں اور وہ خزانے جو عقل کی زمین میں پوشیدہ ہیں انھیں آشکار کریں اور باہر لائی۔کلامِ امیرالمؤمنین(ع) کے آخری جملے میں«وَ یُثِیْرُوْا لَهُمْ دَفَآئِنَ الْعُقُوْلِ»بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

امام  علی(ع) کے اس جامع بیان سے یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد  فطرت پر توجہ دینا اور ان ذخائر کو استعمال کرنا ہے جو انسان کے پاس ہیں اور دستِ قدرت نے اسے ان کی  فطرت میں چھپا رکھا ہے۔([2])

* امیر المومنین علی(ع) کا نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں بیان مندرج ہے جہاں زمین و آسمان اور روئے زمین پر  انسان کی تخلیق کا ذکر ہےوہیں اس کے بعد  نبیوں اور رسولوں کی آمد کی حکمت کا مسئلہ اٹھایا گیا ہےاور اس موضوع کے ضمن میں عَالَمِ نفس اور عقل کی اسراز آمیز دنیا اور انسانی روح کا ذکر ملتا ہے جو کہ بہت ہی زیادہ توجہ طلب اور قابل اہمیت موضوع ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں: «فَبَعَثَ فِیْهمْ رُسُلَهٗ، وَ وَاتَرَ اِلَیْهِمْ اَنْۢبِیَآئَهٗ، لِیَسْتَاْدُوْهُمْ مِیْثَاقَ فِطْرَتِهٖ، وَ یُذَكِّرُوْهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهٖ، وَ یَحْتَجُّوْا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلِیْغِ، وَ یُثِیْرُوْا لَهُمْ دَفَآئِنَ الْعُقُوْلِ» اللہ نے ان میں اپنے رسولؑ مبعوث کئے اور لگاتار انبیاءؑ بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیں، اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں، پیغامِ ربانی پہنچا کر حجت تمام کریں، عقل کے دفینوں کو ابھاریں.

 یعنی خدا نے انبیاء و رُسُل  بھیجے اور انہیں ایک کے بعد ایک بھیجا اور اس کی حکمت یہ تھی کہ انسانی فطرت میں کیے گئے عہدوں کو پورا کیا جائے اور ان میں موجود صلاحیتوں کو ظاہر کیا جائے اور انسان کے پاس  موجود خدا کی عظیم نعمتوں اور حیرت انگیز صلاحیتوں کے بارے میں  اور وہ شاندار نعمتیں جو انہیں دی گئی ہیں اس سے انسان کی غفلت کو دور کیا جائے اور اس طرح ان پر حجت تمام کردی جائےاور پھر یہ کہ "انسانوں کی عقلوں  کے اندر چھپے ہوئے خزانوں اور دفینوں  کو ظاہر کریں" ہے۔  اس جملے میں بہت غور و فکر کی ضرورت ہےاور اس جملے پر حیرت و تعجب سے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبالینے کی ضرورت ہے۔  انسانی عقل کے خزانوں اور دفینوں کا کیا مطلب ہے؟  امام علی﷣ نے ایک ہزار تین سو پچاس سال پہلے باطنی عقل کے اسرار و رموز  پر گفتگو کی جبکہ سائنس کی دنیا میں ابھی نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا کہ اندرونی عقل  اور عقلِ باطن کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔([3])
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
([1]) نہج البلاغہ، ص 43، خطبہ 1۔
([2]) حکمتہا و اندرزہا (1-2)، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 22، ص 333۔
([3]) حکمتہا و اندرزہا (1-2)، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 22، ص 344۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
16 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 65