اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لئے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو بھیجا اگر ہم انبیاء علیہم السلام کی خصوصاً پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اور تعلیمات پر غور کریں تو ہمیں دو باتیں بہت ہی واضح طور پر ملیں گی ایک اللہ کی عبادت ، دوسرے مخلوق کی خدمت ۔
رسول اللہ (ص) کی بعثت سے متعلق قرآن کریم میں جتنی بھی آیتیں ہیں یا عامہ و خاصہ کی کتب احادیث میں جتنی بھی احادیث اس سلسلہ میں نقل کی ہیں وہ بھی انہیں دو محور وں پر گردش کرتی نظر آتی ہیں ۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے دو ہی حقوق کی ادائیگی چاہتا ہے ایک اس کا حق ہے یعنی اسکی عبادت اور دوسرے اس کے بندوں کا حق ہے یعنی مخلوق کی خدمت اور اس کے ایک حق کی ادائیگی کے لئے نہ جانے مخلوق کے کتنے حقوق کا لحاظ رکھنا ہوتا ہے۔
رسول اللہ (ص) پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس میںاسی کی جانب متوجہ کیا گیا ہے ۔ اگرچہ ظاہر ًا اسمیں پروردگار کی معرفت پر گفتگو ہوئی ہے لیکن جہاں اس کی معرفت کا بیان ہے وہیں انسان کی حقیقت کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے ۔ ’’اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ۔ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ‘‘ پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو ! تمہارا پروردگار بہت کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔ اور انسان کو وہ کچھ پڑھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (۱)
مذکورہ آیات میں جہاں اللہ کی معرفت کرائی جا رہی ہے وہیں تعلیم کی دعوت بھی دی جا رہی ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو دنیا کے تمام ظالم و جابر اور ستمگر حکمرانوں میں ایک بات جو مشترکہ طور پر پائی جاتی تھی اور پائی جاتی ہے وہ عوام کو تعلیم سے دور کرنا ہے۔ خود جب ہمارے حضورؐ مبعوث بہ رسالت ہوئے تو عرب خصوصاً مکہ مکرمہ میں لوگوں کی جہالت کاکیا عالم تھا شائد اسی لئے قبل بعثت کے زمانے کو دور جاہلیت کہتے ہیں۔ دنیا طلب شیطانی مزاج کبھی نہیں چاہتے کہ عوام پڑھیں لکھیں۔ کیوں کہ ایک جاہل صرف خود کے لئے نقصان دہ نہیں ہے بلکہ اسکی جہالت کے برے اثرات گھر سے لے کر سماج تک پہنچتے ہیں ۔ اسی طرح عالم اور پڑھے لکھے کے علم سے نہ صرف خود وہ بہرہ مند ہوتا ہے بلکہ گھر سے سماج تک بلکہ نسلیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ البتہ علم بھی تب مفید ہوتا ہے جب علم سے افادہ و استفادہ میں دینی احکام و حدود کی کوشش نظر میں رکھی جائے ورنہ یہی علم ایٹم کی توانائی کو دنیا کی آبادکاری کے بجائے تباہی کا سبب بنا دیتا ہے۔
ایک پڑھالکھا انسان جب حدود دین میں رہ کر سوچتا ہے تو اس کی فکر نسلوں کے لئے مشعل راہ بن جاتی ہے ۔ شائد اسی لئے معصومین علیہم السلام کے نزدیک ایسی ایک گھنٹہ کی فکر ستر برس کی عبادت سے افضل ہے۔ لیکن اگر یہی انسان جاہل ہوا تو نہ کچھ سوچ سکتا ہے اورنہ ہی سمجھ سکتا ہے اور اگر سوچے گا بھی تو اس میں نہ چاہتے ہوئے بھی نقصانات موجود ہوں گے۔
جیسا کہ سورہ جمعہ کی دوسری آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کی بعثت کے مقاصد کو یوں بیان کیا ’’هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‘‘ وہ (اللہ) وہی ہے جس نے بے پڑھے لکھے عربوں میں انہیں میں سے ایک کورسول بنا کربھیجا جو ان لوگوں کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔ (۲) یعنی آیات الہی کی تلاوت اور تزکیہ نفوس کے بعد رسول اللہ (ص) کی بعثت کا اہم مقصد تعلیم ہے۔ اس ارحم الراحمین خدا نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے رحمۃ للعالمین ؐ کو بھیجا تا کہ انسانیت الہی تعلیم سے مالا مال ہو اور جب وہ تربیت و تزکیہ کے ساتھ تعلیم سے مالا مال ہوگی تو اپنے بنیادی حقوق کو پہچانے گی اور اس کی پاسبانی کرے گی اور دوسروں کے حقوق کو چھیننے کے بجائے انکو انکا حق دلوائے گی۔
جیسا کہ بالا ئی سطور میں عرض کیا کہ جہالت سے صرف جاہل کو ہی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ گھر سے سماج تک اس کے برے نتائج سامنے آتے ہیں ۔ جاہلانہ رسم و رواج وجود میں آتے ہیں اور آج بھی ہم سماج میں ایسی رسومات کو مشاہدہ کرتے ہیں جو انسان کو بے دینی کی جانب لے جارہی ہیںاصل دین سے غافل بنارہی ہیںیا کم از کم ان پر قیمتی وقت اور مال خرچ ہوتا ہے جس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہوتا ہے کہ رسوم پر طاقت انرجی مال سب اتنے لگ جاتے ہیں کہ واجبات و مستحبات کی نوبت ہی نہیں آتی یا رسوم کو ادا کرکے انسان مطمئن ہو جاتا ہے اور احکام الہی تک نہیں پہنچتا۔ اسی طرح جب رسول اللہ (ص) نے اعلان اسلام کیا تو اس وقت سماج میں جاہلانہ رسمیں سر چڑھ کر بول رہی تھیں اور بشریت اسکی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ’’الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ ععَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘ جو اس پپیغمبرؑ کی پیروی کریں گے جو نبیِ امی ہے جسے وہ اپنے ہاں تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں جو انہیں نیک کاموں کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے جو ان کے لئے پاک و پسندیدہ چیزوں کو حلال اور گندی و ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے ان کے بوجھ اتارتا ہے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی تعظیم کی اور اس کی مدد و نصرت کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (۳)
یعنی نبی ؐ خدا کے اہم کاموں میں ایک بشریت کو رسم و رواج کی تباہ کن زنجیروں سے نجات دلانی ہے ۔ کیوں کہ جس طرح جب تک کوئی برتن پاک و صاف نہ ہوگا دوسری غذا کا اسمیں پکانا ممکن نہیں ہو گااور اگر بٖغیر صفائی اور پاکیزگی کے اسمیں دوسری غذا پکائی گئی تو پہلی غذا کا ذائقہ اور بو بہرحال اسمیں اثرانداز ہو گا۔اسی طرح جب تک غیراسلامی رسم و رواج کے بندھن میں بندھا رہے گا دین پر کماحقہ عمل ممکن نہیں ہو گا۔
اسی طرح قرآن کریم نے اس دور کی دیگر برائیوں اور رسموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جیسے سورہ انعام کی ایک سو اکیاونویں آیت میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِاالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ‘‘ یعنی اے رسول ان سے کہہ دیں کہ آؤ میں تمہیں بتاؤں وہ چیزیں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں:
(۱) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
(۲) اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
(۳) اور اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی روزی دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے) ۔
(۴) اور بے شرمی و بے حیائی کے کاموں (جیسے جنسی غلط کاری) کے قریب بھی نہ جاؤ۔ خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ۔
(۵) اور نہ قتل کرو کسی ایسی جان کو جس کے قتل کو خدا نے حرام قرار دیا ہے مگر (شرعی) حق (جیسے قصاص وغیرہ) کے ساتھ۔ یہ وہ ہے جس کی اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے۔ تاکہ تم عقل سے کام لو۔
مذکورہ آیت میں جن برائیوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اسمیںپہلی بات شرک ہے جس کا تعلق پروردگار سے ہے باقی تمام باتوں کا تعلق اسکی مخلوقات سے ہے چاہے وہ والدین ہوں، اولاد ہو، کسی کی آبرو و حرمت ہو یا کسی کا بے گناہ قتل ہو ۔ ان سب کا تعلق بندوں سے ہے اور انکا خاتمہ ہی انکی سب سے بڑی خدمت ہے اور انہیں برائیوں کو ختم کرنے کے لئے رسول اللہ (ص) نے دین کا اعلان کیا تھا۔نہ صرف اخلاقیات بلکہ معاملات کے سلسلہ میں بھی اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْسًاا إِلاَّ وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللّهِ أَوْفُواْ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ‘‘ اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رشد و کمال تک پہنچ جائے۔ اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ اور جب کوئی بات کہو تو عدل و انصاف کے ساتھ۔ اگرچہ وہ (شخص) تمہارا قرابتدار ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ یہ وہ ہے جس کی اس (اللہ) نے تمہیں وصیت کی ہے شاید کہ تم عبرت حاصل کرو۔
ان آیت میں بشریت کو جن اہم امور کی جانب متوجہ کیا اسمیں خود انہیں کا فائدہ ہے، چاہے یتیموں کے مال کی حفاظت ہو، چاہے ناپ تول میں انصاف ہو یا لوگوں سے عادلانہ برتاؤ ہو ۔ ان سب میں صرف و صرف انسانوں کا ہی فائدہ ہےاورجب ان احکام پرکو ئی عملی جامہ پہنایا جائے گا تو اس سے بڑھ کر بشریت کی کوئی خدمت نہیں ہو گی۔ یہ باتیں جہاں قرآنی احکام ہیں وہیں ہمارے نبی (ص) کی سنت و سیرت بھی ہے کہ آپ نے سماج میں عادلانہ نظام کے لئے قیام کیا تا کہ ظلم وستم سے تڑپتی بشریت کو نجات دی جا سکے۔
رسول اللہ (ص) نے عدل و انصاف کے سلسلہ میں صرف زبانی تبلیغ نہیںکی بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا اور یہ عملی نمونے نہ صرف اعلان اسلا م کے بعد پیش کئے بلکہ اعلان اسلام سے پہلے بھی آپ نے عدل وانصاف، ظالموں کی مخالفت اور مظلوموں کی حمایت کے لئے عملی اقدام کئے اور جب بھی کوئی گروہ مخلوق خدا کی خدمت میں کمربستہ ہوا تو حضورؐ نے اس کی مکمل حمایت اور شانہ بہ شانہ چلے۔ جیسے بعثت سے بیس سال پہلے حلف الفضول کا عہد ہو کہ جب مکہ مکرمہ میں قبیلہ قریش کے کچھ افراد نے طے کیا کہ اگر مکہ مکرمہ میں کسی مظلوم و بے سہارا پر ظلم و زیادتی کی تو وہ اس کی حمایت کریں گے تو ہمارے نبیؐ بھی اس گروہ میں شامل ہوئے۔ اعلان اسلام کے بعد مکّی زندگی اور مدنی حیات طیبہ میںبھی اس عہد کی تمجید فرمائی۔
مشہور روایات کے مطابق بعثت سے قبل جب مکہ مکرمہ میں تمام قبیلے خانہ کعبہ کی تعمیر جدید کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھ رہےتھے اور سب مل جل کر تعمیری امور انجام دے رہے تھے لیکن جیسے ہی نوبت حجر اسود کے نصب کی آئی تو یہ افتخار ہر قبیلہ خود چاہتا تھا لہذا تلواریں نیام سے باہر آگئیں ۔ کئی دن کی کشمکش کے بعد یہ طے پایا کہ جو بھی مسجد الحرام میں سب سے پہلے داخل ہو گا ۔ وہ جو فیصلہ کرے گا اسے سب مانیں گے۔ سارے قبیلے انتظار میں بیٹھے تھے کہ حضورؐ داخل ہوئے اورایسا تاریخی فیصلہ کیا کھنچی ہوئیں تلواریں نیام میں چلی گئیں اور نہ صرف غیظ و غضب والے چہروں پر مسرت کے پھول کھلے بلکہ دل بھی خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔ اسی طرح ہجرت سے قبل مدینہ منورہ کے دو عظیم قبیلے اوس و خزرج آپس میں بر سر پیکار تھے لیکن حضورؐ کی ہجرت اور مبارک قدموں کی برکت سے ایسا ایک ہوئے کہ آپ نے انہیں انصار کے لقب سے نوازا ۔
کیوں کہ انبیاء علیہم السلام خصوصا پیغمبر ؐ اسلام کی بعثت کے اہم مقاصد میں سے ایک عالم بشریت کے لئے امت واحدہ کا تصور ہےاور انسانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلاف کو مٹانا ہے، ہر تعصب کی دیوار کو گرانا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا۔ ’’ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّننَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ‘‘ سب انسان ایک ہی امت تھے، (پھر جب ان میں باہمی اختلاف پیدا ہوئے) تو خدا نے انبیاء بھیجے۔ (جو نیکوکاروں کو) خوشخبری دینے والے (اور بدکاروں) کو ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی (جس میں قانون تھا)۔ تاکہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کرے اور یہ اختلاف انہی لوگوں نے کیا جن کو وہ (کتاب) دی گئی تھی اور وہ بھی تب کہ جب کھلی ہوئی دلیلیں ان کے سامنے آچکی تھیں۔ محض بغاوت اور زیادتی کی بنا پر۔ تو خدا نے اپنے حکم سے ایمان والوں کو ان اختلافی باتوں میں راہِ حق کی طرف راہنمائی فرمائی۔ اور خدا جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فرماتا ہے۔ (۴)
ممکن ہے بعض اذہان میں سوال پیدا ہو کہ جب سب ایک ہی امت ہیں تو اللہ نے کسی کو مرد تو کسی کو عورت یا کسی کو گورا تو کسی کو کالا اور کسی کو عربی اور کسی عجمی کیوں خلق کیا تو اس کا بھی جواب قرآن کریم نے دے دیا ۔ ’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ‘‘ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد (آدمؑ) اور ایک عورت (حواؑ) سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بےشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا ہے، بڑا باخبر ہے۔ (سورہ حجرات آیت ۱۳) یعنی اللہ جنس اور رنگ و نسل کو معیار فضیلت نہیں قرار دیا بلکہ انہیں صرف ذریعہ تعارف قرار دیا ہے ۔ اللہ نے جس چیز کو معیار فضیلت قرار دیا ہےوہ علم، راہ خدا میں جہاداور عدالت کے علاوہ بنیادی ترین معیار فضیلت تقویٰ کو قرار دیاہے اور متقی جو علامت خدا نے بیان کی اسمیں جہاں غیب پر ایمان اور نماز کا قیام ہے یعنی الہی حقوق کی ادائیگی ہے وہیں انفاق یعنی حقوق الناس کی بھی ادائگی تقویٰ کی نشانیوں میںشامل ہے۔ ’’ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ‘‘ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کے ساتھ ساتھ آپ کی اخلاقی اور سماجی سیرت بشریت کے لئے نمونہ عمل ہے۔ سنت و سیرت جمع کرنے والوں نے لکھا ہے کہ دوست تو دوست آپ دشمنوں سے بھی اخلاق و مروت سے پیش آتے اور انکی بھی مدد کرتے تھے۔ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے آپ کی سنت و سیرت کو احیاء کیا اگر ہم اہلبیتؑ کی سیرت بھی دیکھیں تو ہمیں اسکے بہترین نمونے ملیں گے۔
خدایا! تو مجھے اپنی معرفت فرما کہ اگر تونے اپنی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں ہوگی ۔ خدایا ! مجھے اپنے نبیؐ کی معرفت عطا کر کہ اگر تونے مجھے اپنے رسولؐ کی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں ہوگی۔ خدایا: مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کیونکہ اگر تونے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہیں عطا کی تو میں اپنے دین ہی سے گمراہ ہوجاوٴں گا۔
تحریر: سید صفی حیدر زیدی
سکریٹری تنظیم المکاتب لکھنو ھند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ علق ، آیات ۱ تا ۵
۲: قران کریم ، سوره جمعہ ، ایت ۲
۳: قران کریم ، سورہ اعراف ، آیت ۱۵۷
۴: قران کریم ، سورہ بقرہ، آیت ۲۱۳
Add new comment