دنیائے عرب، بعثت سے پہلے

Mon, 02/28/2022 - 07:28
بعثت انبیاء

دنیا میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی آمد اور آپ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے عرب کے معاشرہ کی جو صورت حال تھی وہ خود اس کے نام سے واضح و روشن ہے کہ اس دور کو دور جاہلیت کا نام دیا گیا ہے یعنی ایک ایسا دور کہ جس میں برے آداب اور ناپسندیدہ رسومات کا دور دورہ تھا اور لوگ علم و آگہی سے دوری کی بنا پر طرح طرح کی برائیوں اور خرافات میں مبتلا تھے۔

یوں تو عرب کے دور جاہلیت میں بہت سی برائیاں اور بہت سے خرافات رائج تھے مگر یہاں پر ان میں سے چند برے اور نا پسندیدہ آداب و رسوم کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی اکرمﷺ کس ماحول و معاشرہ میں مبعوث ہوئے تھے اور آپ نے اس دور کے لوگوں کو انسان بنانے میں کتنی زحمتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔

۱۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کردینا

بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا ان کی ولادت کے چند برسوں بعد تک بھی رائج تھا اور یہ برا عمل عرب کے بعض قبیلوں جیسے بنی تمیم، بنی قیس، بنی اسد، بنی ہذیل ، بنی بکر بن وائل اور بنی کندہ میں زیادہ رائج و مشہور تھا۔ (۱)

تاریخ میں آیا ہے کہ دور جاہلیت میں جب کسی کے یہاں وضع حمل کا وقت آتا تو شوہر ایک گڈھا کھود کر اس کے پاس بیٹھ جاتا، اگر نوزاد لڑکی ہوتی تو اس گڈھے میں ڈال کر دفن کر دیتا اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ رکھتا تھا۔ (۲)

اس سلسلہ میں تاریخ میں بہت سے دردناک اور تعجب خیز واقعات ہیں۔ صرف چند واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

۱۔ شاعر اہل بیت علیہ السلام جناب فرزدق کے دادا صعصعہ بن ناجیہ مجاشعی کے حالات میں آیا ہے کہ وہ ایک آزاد خیال شخصیت اور بزرگ مرتبت انسان تھے اور وہ دور جاہلیت کے بہت سے برے آداب و رسوم سے مقابلہ کرتے تھے۔ منقول ہے کہ ایک دن وہ رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ایک واقعہ نقل کیا اور کہا:

جوانی کے دنوں میں میرے دو اونٹ گم ہو گئے تھے، میں ان دونوں کی تلاش میں ایک اونٹ کے ساتھ بیابان کی طرف گیا، ایک خیمہ کے پاس پہنچا۔ وہاں پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ پہنچنے پر میں نے اس سے اونٹوں کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے کہا: ان اونٹوں کی نشانی کیا ہے؟ میں نے کہا: ان دونوں پر میرے قبیلہ کی نشانی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے ان اونٹوں کو پایا ہے اور فی الحال وہ میرے پاس ہیں۔ اس طرح میں نے اپنے اونٹوں کو اس کے پاس پایا۔ اسی وقت ایک ضعیفہ جو گویا اس کی ماں تھی، رنجیدہ حالت میں خیمہ سے باہر آئی، اس آدمی نے اس سے پوچھا : کیا جنا ہے؟ میں اس کے سوال سے سمجھ گیا کہ خیمہ کے اندر ایک عورت ہے جو وضع حمل کی حالت میں ہے۔ اس سوال کے بعد اپنی ماں کے جواب کا انتظار کئے بغیر بولا: اگر لڑکا ہے تو وہ مال و زندگی میں ہمارا شریک ہے اور ہمارا وارث بھی ہوگا اور اگر لڑکی ہے تو میں اسے زندہ دفن کر دوں گا۔ اس کی ماں نے جواب دیا: لڑکی ہے۔ وہ آدمی غصہ میں بولا: دیر نہ کرو ، اسے دفن کر دو۔

صعصعہ نے رسول خدا (ص) سے عرض کیا:

یا رسول اللہ (ص) ! اچانک میرے اندر ایک انقلاب پیدا ہوا اور میری عطوفت و مہربانی نے مجھ پر دباؤ ڈالا، میں نے اس آدمی سے کہا: کیا تو اس لڑکی کو میرے ہاتھ بیچے گا؟ اس نے کہا کہ کیا تم نے کسی عرب کے بارے میں یہ سنا ہے کہ اس نے اپنی اولاد کو بیچا ہو اور اس ننگ و عار کو برداشت کیا ہو۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ بیچ مت بلکہ اس احسان اور تحفہ کے بدلے میں جو میں تجھے عطا کر رہا ہوں لڑکی کو مجھے بخش دے۔ اس نے کہا: میں تیار ہوں۔ وہ دوا ونٹ اور یہ ایک اونٹ جس پر میں سوار تھا ، میں نے اس کو دے دیا۔

میں نے اس کو تینوں اونٹ دئے اور لڑکی کو لے کر آیا اور دایہ کے حوالے کر دیا تاکہ اسے پروان چڑھائے۔ یہ واقعہ لوگوں کے سامنے بیان ہوا اور میری شہرت کا سبب بن گیا اور اس واقعہ کے بعد جس کے یہاں بھی لڑکی پیدا ہوتی یہ تجویز میرے سامنے پیش کی جاتی میں نے اپنے اس طریقۂ کار کو نہیں چھوڑا۔ اس وقت تک میں نے دو سو اسی لڑکیوں کو اور ہر ایک کو تین اونٹ سے بدل کر موت سے نجات دلائی ہے۔ یہاں میرا یہ عمل فائدہ مند ہوگا؟

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

تمہارا یہ عمل نیکی کی طرف ایک دروازہ ہے اور اس کا اجر و ثواب بہت عظیم ہے اس لئے کہ اس پسندیدہ روش اور طریقۂ کار کی برکت سے تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ (۳)

ایک شخص رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد کہا:

اگر میں نے کوئی گناہ کیا ہو تو کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟

آپ نے فرمایا: خدا تواب (بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والاہے) اور رحیم ہے۔

اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! میرا گناہ بہت بڑا اور عظیم ہے۔

آپ نے فرمایا: تجھ پر وائے ہو! تیرا گناہ چاہے جتنا بڑا ہو، خدا کی عفو و بخشش اس سے کہیں بزرگ ہے۔ اس نے عرض کیا: جب آپ یہ فرما رہے ہیں تو جان لیجئے کہ دور جاہلیت میں ایک بار میں ایک دوردراز سفر پر گیا ہوا تھا۔ اس وقت میری بیوی حاملہ تھی، جب میں چار سال کے بعد واپس آیا تو میری بیوی استقبال کے لئے آئی تو میں نے دیکھا کہ میرے گھر میں ایک بچی بھی ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کس کی بچی ہے؟ بیوی نے کہا: ایک پڑوسی کی بچی ہے ۔ میں نے سوچا کہ ابھی کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر چلی جائے گی لیکن میں نے تعجب سے دیکھا کہ وہ اپنے گھر نہیں گئی۔ میں اس بات سے بے خبر تھا کہ وہ میری ہی بچی ہے اور اس کی ماں اس بات کو مجھ سے چھپا رہی ہے تاکہ میں اسے قتل نہ کروں۔ آخر کار میں نے بیوی سے کہا کہ سچ بتا کہ یہ کس کی بچی ہے؟ بیوی نے کہا: آپ کو یاد ہے کہ جب آپ سفر پر گئے تھے تو میں حاملہ تھی ۔ یہ وہی بچی ہے اور آپ کی بیٹی ہے۔ میں رات بھر پریشان رہا ، کبھی سوتا تھا تو کبھی اچانک جاگ جاتا تھا۔ سویرا ہونے ہی والا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور بچی کے بستر کے پاس گیا ۔ وہ اپنی ماں کے پاس سو رہی تھی۔ اسے بستر سے اٹھا کر جگایا اور کہا: میرے ساتھ کھجور کے باغ میں چلو۔ بچی میرے پیچھے پیچھے چلنے لگی یہاں تک کہ ہم لوگ اس باغ میں پہنچ گئے۔ میں ایک گڈھا کھودنے لگا اور وہ مٹی نکالنے میں میری مدد کرنے لگی۔ جب گڈھا تیار ہو گیا تو میں نے اسے اٹھا کر گڈھے میں ڈال دیا۔ اس وقت نبی اکرم (ص) کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

اس کے بعد میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے شانے پر رکھا تاکہ وہ گڈھے سے نکلنے نہ پائے اور داہنے ہاتھ سے اس پر مٹی ڈالنے لگا۔ وہ برابر ہاتھ پیر مار رہی تھی اور فریاد کر رہی تھی کہ بابا جان! آپ میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ اسی وقت ذرا سی مٹی میری داڑھی میں لگ گئی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا اور میرے چہرے کو صاف کیا لیکن پھربھی میں سنگ دلی کے ساتھ اس پر مٹی ڈالتا رہا یہاں تک کہ اس کے آخری فریادیں بھی مٹی کی تہہ کے نیچے دب گئیں۔

اس وقت رسول خدا (ص) بہت ناراض و غمگین ہوئے اور آنکھوں سے آنسو کو صاف کیا اور فرمایا: اگر خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت نہ کئے ہوتی تو لازم تھا کہ جلد از جلد تجھ سے انتقام لے لیتا۔ (۴)

تحریر: فیروز علی بنارسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱:  مجمع البحرین ج۳ ص ۱۵۳
۲:مجمع البیان ج۱۰ ص ۶۷۴
۳:قاموس الرجال ،ج۵ ص ۱۲۵
۴:تفسیر نمونہ،ج۱۱ص۲۷۲

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
11 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 22