دنیائے انسانیت فتنہ و فساد، ظلم و جور اور گناہ و معصیت سے دوچار تھی ہر طاقتور کمزور کو ستانا اس کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتا تھا یہودیت اپنے انانیت ہٹ دھرمی اور نہ جانے کتنے باطل امتیازات کی بنا پر اپنے کو سب سے افضل و برتر سمجھ رہی تھی عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات سے کوسوں دور خاموشی سے اپنے مفاد پرست طرز عمل کا پرچار کر دہی تھی اور کفرو بت پرستی کا بول بالا تھا خدائی افراد یا گوشہ نشینی یا انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے کمزور عوام کا خون چوسا جا رہا تھا اور گویا پوری انسانیت سسک رہی تھی سب کو انتظار تھا ایک انقلاب ایک نجات دھندہ ایک روحانی طاقت اور ایک الٰہی نمائندہ کا، ہر آنکھ پرنم، ہر دل مضطرب، ہر نگاہ بے چین، ہر زبان ملتجی اور ہر مصیبت زدہ سراپا انتظار ۔
اچانک سرزمین مکہ پر ایک نور چمکا جس کی ضیاء پاشیوں سے دنیا منور ہوگئی اس نور کی عظمت کے سامنے اس وقت کی دو بڑی طاقتوں قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں زلزلہ کے آثار نمودار ہوئے دریائے ساوہ خشک ہوگیا ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر گر پڑے دنیا کو امید کی ایک کرن نظر آئی لیکن ابھی انتظار باقی تھا کمالات کے اظہار کا نجات دینے والے مشن کی ابتدا کا بچپنے میں دودھ پلانے کی ذمہ داری دایہ حلیمہ سعدیہ کے حصہ میں آئی آپ کی وجود کی برکت سے علاقہ کی خشک سالی دور ہو گئی گویا ابتدا ہی سے برکتوں کا اظہار ہونے لگا ۔
دن گذرتے رہے انوکھا کردار منفرد طریقہ کار سب کو اپنی طرف متوجہ کررہا تھا بروں کے درمیان ہے اور اچھا ہے جھوٹوں کے درمیان ہے اورسچا ہے بے ایمانوں کے درمیان ہے اور امانتدار ہے بت پرستوں کے درمیان ہے اور یگانہ پرست ہے آخر اس میں کون سا کمال کون سی خصوصیت ہے گھر والے تربیت کرنے والے مطمئن ہیں اس لئے بھی کہ اس آئین پاک سے متعلق ہیں جہاں کفر و معصیت کا گذر نہیں لیکن ایسے ماحول میں بھی ایک نمایاں کردار گویا اپنی خاموشی میں بھی ایک پیغام دے رہا تھا عزم و حوصلہ بتا رہا تھا کہ کوئی نیا کارنامہ انجام پانے والا ہے شاید اسی لئے عبدالمطلب جیسےخدا پرست نے تربیت کے لئےابوطالب جیسے ہمدرد مخلص، ہوشیار، محافظ سرپرست کی ضرورت سمجھی تھی اور جناب ابوطالب بھی اپنی ساری مصروفیات پر اس فرزند کی حفاظت اور حمایت کو ترجیح دیتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے سن مبارک ۱۲سال ہوگیا اور شام کا سفر در پیش ہوا ، بحیرہ نے دیکھا تو دیکھتے ہی پہچان گیا ، ہو بہو وہی علامتیں وہی خد و خال وہی صورت وہی کردار آخر جناب ابوطالب کو تنہائی میں لے جا کر کہنے لگا اس کی حفاظت کا خاص اہتمام کیجئے ۔
شاید اسے نہیں معلوم تھا کہ اس طویل سفر میں اپنے سے جدا نہ کرنے کا اصل سبب آپ کی حفاظت و حمایت ہی ہے اور نور نبوت جو بحیرہ نے آج دیکھا ہے اس کا مشاہدہ جناب ابوطالب (س) کی دوررس نگاہیں ابتدا ہی سے کر رہی ہیں سفر تمام ہوا اور پھر ۲۵، سال کی عمر میں دوسرا سفر ہوا اس مرتبہ قافلہ تجارت کی سربراہی خود اپنے ہی ہاتھ میں تھی تجارت کا ایسا پسندیدہ انداز اپنایا کہ خریدار بھی خوش اور فائدہ بھی زیادہ ۔
ملیکہ العرب جو اپنے پاکیزہ کردار کی بنیاد پر پہلےسے متاثر تھیں اس طرح کے مشاہدہ کے بعد اور زیادہ متاثر ہوگئیں اور جن کے لئے بڑے بڑے ثروت مندان عرب اپنے رشتے لئے حاضر تھے انہوں نے رسم عرب کے بر خلاف خود ہی رشتہ بھیج دیا قدرت نے دو پاکیزہ دلوں کو ایک کردیا اور اس طرح ایک نئے پاک و پاکیزہ گھر کی بنیاد پڑی خداوند کریم کے کرم پاکیزہ رشتہ بار أور ہوا بیٹوں کی ولادت سے صحن خانہ میں بہار أیی لیکن منشاء الٰہی کہ وہ بت جلد خزاں کی نذر ہو گئے قدرت نے ایک اور حسین انتظام کیا ۔
تحریر: سید حمیدالحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
Add new comment