تاریخ کی ورق گردانی اور متعدد آثار قدیمہ کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی تہذیب کئی ہزار سال قبل مسیح پرانی ہے۔ اس سرزمین پر کئی قدیم اور تاریخی تہذیبیں پھل پھول چکی ہے اور بالآخر مرجھا کر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ ایرانی تاریخ روز اول سے عالمی توجہ کا مرکز رہا ۔ جس کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔کلی طور پر ایرانی تاریخ دوحصوں میں تقسیم ہے قبل از اسلام اور بعد از اسلام ۔ قبل از اسلام ایرانی تاریخ تین حصوں پر مشتمل ہے:
آریاوں سے پہلے کی تاریخ ،آریاؤں کی تاریخ اورقدیم ایران کی تاریخ
آریاؤں سے پہلے ایرانی تاریخ میں مختلف تہذیبوں کا تذکرہ ملتا ہے ۔ کاسی تہذیب ،شہر سوختہ کی تہذیب ،جیروفت تہذیب اور لام تہذیب وغیرہ ۔ یہ مختلف نسلی گروہ ایران کے مختلف علاقوں میں رہتے تھے ان تہذیبوں میں لام تہذیب سب سے بڑی تہذیب مانی جاتی ہے۔
دوسرا دور آریاؤں کا دور دورہ تھا ان کا اصل وطن بحیرہ اسود سے لیکر کرسیہوں اور جیہوں ندیوں کے آس پاس تھا ۔ بعد میں کچھ آریائی ایران و ہندوستان اوریورپ کی طرف ہجرت کرگئے ۔ آریائی ایران کی سرزمین میں داخل ہونے کے بعد مختلف قبیلوں میں بٹ گئے ان قبیلوں میں سے اہم قبیلے مادھا، پارتھی اور فارسی تھے۔ ماد قبیلے سے ہی قدیم ایران کی تاریخ شروع ہوئی جو ساسانی دور کے خاتمے یعنی ایران پر عربوں کی فتح تک رہی۔یہ دور سلوکیوں ، پارتھیوں اور ساسانیوں پر مشتمل تھا ۔
ایران پر عربوں کی فتح کے بعد اس سرزمین پر دین اسلام پھیلا ۔عربوں نے ایرانی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑدئے ۔ اس دور میں سماجی ،مذہبی اور سیاسی میدانوں میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ اپنے ملک میں طبقاتی تفریق سے مطمئن نہ ہوکر ایرانیوں نے اسلام قبول کیا اور اسے پھیلانے کی کوشش کی۔ بعد از اسلام اس سرزمین پر بھی امویوں اور عباسیوں کا دبدبہ رہا ۔ لیکن تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانیوں نے اموی اور عباسی حکومت کے خلاف اپنی مخالفت نہ چھپائی بلکہ آزاد تحریکیں شروع کی۔ اسی کا ثمرہ یہ نکلا کہ عباسی بادشاہ مامون کے کمانڈر طاہر زوالیمین نے سرزمین ایران پر طاہری سلطنت کی داغ بیل ڈالی ۔عرب حملے کے بعد یہ ایران کی پہلی آزاد حکومت تھی جس کا دارالخلافہ نیشا بور تھا۔
طاہری دور کا خاتمہ یعقوب لیس صفار کی ہاتھوں ہوا اس طرح سے صفاری دور کا آغاز ہوا ۔تاریخ دانوں کے مطابق طبرستان اور دیلام میں علوی حکومت قائم ہوئی ۔علوی امام حسن علیہ السلام کے اولاد میں سے تھے ۔اس کے حکمران داعی کبیر اور ناصر کبیر تھے ۔ آخر کار سامانیوں کے ہاتھوں اس حکومت کو تباہ کردیا گیا۔سامانیوں کے بعد بالترتیب زیاریاں ، البوحید ، غزنوی ،سلجوقی، خوارزمشاہی اور منگولوں کی حکومتیں قائم ہوئی ۔ ان میں سے کچھ چھوٹی اور کچھ بڑی سلطنتیں تھیں ۔ غزنوی دور بھی تاریخی اہمیت کا دور کہا جاتا ہے غزنویوں نے تاریخ ایران میں اپنے آپ کو غازیوں اور مسلمان جنگجوؤں کے طور پر معارف کرایا ۔
منگولوں کے ابتدائی دور میں ایران تباہ ہوگیا ۔انہوں نے قتل وغارتگری کے تمام حدوں کو پار کیا۔ اس کے بعد ہلاکو خان نے ایلخانیان حکومت کی بنیاد رکھی۔ ایلخانیوں کے بعد چنگیز خان کے رشتہ دار تیمور لنگ نے تیموری شہنشاہیت کا آغاز کیا۔تیموریوں کے بعد صفوی دور کا آغاز ہوا ۔ تاریخی اعتبار سے صفوی دور ایران کا سنہری دور تھا یہ دور1501تا 1732عیسوی تک رہا ۔طول تاریخ میں پہلی بار شیعہ مذہب کو ایران میں سرکاری مذہب کے طور پر معارف کرایا گیا۔شیعہ مکتب فکر دینی سیاسی اور سماجی خصوصیات کے ساتھ ایران کے اتحاد اور آزادی کا باعث بنا جس نے سلطنت عثمانیہ کے مقابلے میں اپنے قومی تشخص کو قائم ودائم رکھا۔یہ دور ایران کی تاریخ میں سیاسی اور مذہبی طاقت کے طور پر اُبھرنے میں کامیاب رہا۔اسکے علاوہ ایران سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ بن گیا۔
افغانوں نے صفویوں کا خاتمہ کردیا۔ نادر شاہ افشار نے افغانیوں کو شکست دیکر ایران پر غلبہ پالیا۔ اور افشاری حکومت قائم کی ۔ افشاریوں کے بعد قیدیوں نے اقتدار حاصل کیا جنہوں نے شہر شیراز کو اپنا دارالخلافہ بنایاجس کے بعد زندیوں کا دور آیا اور زندیوں کے بعد قاچاری دور کا آغاز ہوا قاچاری دور کا بانی آقا محمد خان قاچار تھا اور اس دور کا آخری بادشاہ احمد شاہ قاچار تھا انہوں نے تہران کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ قاچاریوں نے 129سال تک حکومت کی۔ نصیر الدین شاہ قاچار ایران کی تاریخ کا سب سے نالائق بادشاہ تھا جس نے اپنے50سالہ دور حکومت میں ایران کو تباہی کی اور دھکیل دیا۔ اس دور میں دنیا کی تہذیب وثقافت عروج پر تھی لیکن یہ نالائق بادشاہ خواتین کے ساتھ گپ شپ اور مونچھیں ناپنے میں اپنا وقت صرف کررہا تھا۔
نصیر الدین شاہ کے بعد فتح علی شاہ قاچار نے بھی یہ روایت برقرار رکھی ۔قاچاریوں کی نالائقی کے باعث روسیوں نے ایران کے بیشتر حصوں پر قبضہ کیا ۔ اس منحوس دور میں ایران میں برطانیہ اور روس جیسی استعماری طاقتوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ۔ خراسان کو بھی ایران سے الگ کردیا گیا۔ ان پیش رفتوں کے نتیجے میں ایران میں تمباکو کی تحریک ،تحریک مشروطیت جیسی متعدد تحریکوں کا آغاز ہوا ۔ یہ تحریکیں بالآخر کامیاب ہوگئی اور قاچاری سلطنت کا خاتمہ ہوگیا ۔
رضا خان کبیرجو ایک فوجی آفیسر تھا نے اقتدار سنھبالا اور پہلوی خاندان کے قیام کا اعلان کیا ۔ یہ سرزمین ایران کا آخری شاہی خاندان تھا جس کا آغاز 1925ء میں رضا شاہ کبیر کی تخت نشینی سے شروع ہوا اور 1979ء میں اس وقت خاتمہ ہوا جب اسلامی انقلاب آب وتاب کے ساتھ ایرانی افق پر نمودار ہوا۔ اورایران میں ملوکیت کی منحوس تاریخ اور پرانی روایت کا بھی خاتمہ ہوا۔ پہلوی حکومت دو بادشاہوں باپ بیٹے رضا شاہ پہلوی اور محمد رضا شاہ پہلوی پر مشتمل تھی ۔ اس دور میں ایران میں مغربی طرز معاشرت پھل پھول چکا تھا، مغرب کے بیہودہ تہذیب نے ایران کا معاشرہ بُری طرح سے آلودہ کیا تھا۔ ایک ایسے منحوس ماحول کو پروان چڑھایا گیا تھا جس میں اسلامی طرز معاشرت اختیار کرنے والے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جارہا تھا ۔ حجاب کو عیب اور باپردہ عورت کا مذاق اڑایا جارہا تھا اور علماؤں کی توہین کی جارہی تھی۔ فحشیات ومنکرات ، بدیوں اور برائیوں کا سلسلہ تھمنے کا نام تک بھی نہیں لیتا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی ایران ترقی کے بجائے تنزلی کی راہ پر گامزن تھا ۔ ایران کے قدرتی خزانوں پر بیگانوں کا قبضہ تھا ۔ تیل ایران کا تھا اور قیمت سامراج کے ہاتھوں میں۔ خواتین ایران کی تھیں لیکن ان کا لباس ان کا رہن سہن مغربی تھا۔ مغربی طرز زندگی اپنانے والوں کو خوب پذیرائی مل رہی تھی۔ شاہ کے خلاف زبان کھولنے والوں کو ساواک جیسی خوفناک اور خونخوار ایجینسی کے عذاب وعتاب کا شکار ہونا پڑتا تھا ۔ رضا شاہ کے بعد محمد رضا شاہ نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا جس نے ظلم وجبر پر استوار بادشاہت کے تحفظ کے لئے ساواک کابھر پو مدد لیا۔
تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی
Add new comment