انقلاب انبیاء سے انقلاب روح اللہ تک

Tue, 02/08/2022 - 07:10
سالگرد پیروزی انقلاب اسلامی

اس وقت شاید میری عمر 14 یا 15 سال کی تھی جب میری ملاقات کراچی کے ایک متدین بزرگ عالم دین سے ہوئی جن کی وجہ سے میں انقلاب اسلامی سے آشنا ہوا اور آج تک میں ان کا احسان مند ہوں کہ بہرحال ان کی وجہ سے انقلاب اسلامی کے بارے میں تحقیق کرنے کا موقع ملا کہ آخر انقلاب ہے کیا؟۔

ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ایک دوست کے اصرار پر ہم انقلاب اسلامی کی سالگرہ کے ایک پروگرام میں شریک ہوئے جہاں پر کئی مقررین نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی؛ ان تقاریر میں ایک جملے نے مجھے کافی سوچنے پر مجبور کیا اور وہ جملہ یہ تھا "خط خمینی، خط انبیاء کا تسلسل ہے" اس جملے کو قبول کرنا میرے لیے نسبتا دشوار تھا، ذہن میں گوناگوں قسم کے شبہات اٹھ رہے تھے کہ کہاں انبیا اور کہاں غیر معصوم؟۔

چند دنوں تک تو میں اس بات پر غور کرتا رہا کہ جناب یہ خطِ انبیا کیا ہوتا ہے اور خطِ خمینی کیا ہے یہ تسلسل سے کیا مراد ہے ؟۔

بہرحال کم سنی اور کم علمی ایک طرف، اور یہ سخت فارسی تراکیب دوسری طرف؛ چند دن گزر گئے لیکن یہ سوالات تو وہیں کے وہیں باقی رہے۔

انہی دنوں ایک دعوت پر میری ملاقات میرے علاقے کے ایک عالم دین سے ہوئی کہ جو اب اس دنیا میں نہیں رہے؛ خدا انھیں غریق رحمت کرے اور اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ محشور فرمائے۔

کھانا کھانے کے بعد جب کچھ موقعہ ہاتھ آیا تو میں نے بھی فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے ان عالم دین کے پاس اپنے سوالوں کی گرہ کھولی؛ جس وقت میں یہ سوالات پوچھ رہا تھا تو اس محفل میں کچھ لوگ اور بھی موجود تھے کہ جو میرے ان سوالات کو کافی غور سے سن رہے تھے میرے سوال کے اختتام پر ہی اسی محفل میں ایک اور عالم دین نے مجھ سے کہا بیٹا ان سیاسی چکروں میں نہ پڑو تعلیم پر توجہ دو۔
یہ سنتے ہی بزرگ عالم دین سیخ پا ہوگئے اور انہیں جواب دیا کہ جناب آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟؟؟ اگر آپ کے پاس کوئی علمی جواب ہے تو بہتر ہے کہ اس بچے کو درست انداز میں سمجھائیں اور اگر نہیں جانتے اس بارے میں تو اس طرح سے لوگوں کو گمراہ نہ کریں!

اب مجھے تو ایسا لگا کہ میں نے کوئی غلط سوال پوچھ لیا ہے کیونکہ میرے سوال کے بعد تقریبا 1 گھنٹے تک ان دونوں بزرگوں کے درمیان شدید قسم کی بحث و تکرار ہوتی رہی؛ ہرچند کے اس ایک گھنٹے کے دوران بہت سی اہم باتیں ہوئیں کہ جسے میں اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کرسکتا لیکن اس بحث کے اختتام تک میں اپنے سوال کا جواب نہ لے سکا تھا۔

بہر حال بحث ازخود تو ختم نہیں ہوئی، ختم کروانی پڑی وہ بھی مزیدار کڑک دودھ پتی چائے سے؛ چائے نے ایسا جادو کردیا کہ سب خاموش ہوگئے۔ چائے کے بعد جب سب لوگ جا چکے تھے تو اس بزرگ عالم دین نے مجھے روکا مجھے بٹھایا اور پھر میرے سوال کا جواب کچھ اس طرح سے دینے لگے کہ بیٹا یہ جملہ جو آپ نے سنا ہے یہ بالکل صحیح جملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ خطِ امام خمینی، خطِ انبیا کی ہی کڑی ہے بلکہ نہ صرف انبیا بلکہ خط امام خمینی، خط اہلبیت کا بھی تسلسل ہے۔

مزید وضاحت دینے لگے کہ بیٹا خط سے مراد یعنی روش، یعنی راستہ،اصول اور آئیڈیالوجی ہے اور یہ جملہ جو آپ نے سنا ہے بلکل درست سنا ہے۔کیونکہ امام خمینی جس خط پر چلے تھے وہ انبیا علیہم السلام اور اہلبیت علیہم السلام کا خط تھا اور انہیں کی سیرت پر عمل پیرا ہوئے اور امام خمینی نے جس انقلاب کی بنیاد رکھی در حقیقت اس کا اصلی مصدر اور سرچشمہ، انبیا اور اہلبیت علیہم السلام کی حیات طیبہ ہے۔

آخر میں فرمانے لگے بیٹا چونکہ انقلابی اور سیاسی رہنا اور اس خط پر چلنا بہت سوں کے لیے دشوار ہے لہذا بہت سے افراد آپ کو انقلابی بننے سے روکیں گے۔مختلف قسم کے ناروا نسبتیں بھی دیں گے۔

میرے بیٹے! بہت سے افراد آپ سے کہیں گے کہ اس انقلاب کے چکر میں نہ پڑو ورنہ سیاسی ہوکر رہ جاوگے اور آپ کو یہ بھی سننے کو ملے گا کہ صرف عبادت پر توجہ دو، تہذیب نفس پر کام کرو سیاست اور انقلاب کے چکر میں نہ پڑو! کبھی ایسے لوگوں کے بہکاوے میں نہ آنا خود تحقیق کرو مطالعہ کرو اھلبیت علیم السلام کی زندگی کا مطالعہ کرو حقیقت تک انشاءاللہ پہنچ جاوگے !۔

جی ہاں اگر غور کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آدم سے لے کر خاتم تک اور یہاں سے لے کر امام زمانہ عج تک، ان تمام ہستیوں کا خط، ان کا راستہ ان کا موقف، انقلابی اور سیاسی تھا؛ وہ امام اور اہلبیت کہ جنہیں ہم زیارت جامعہ کبیرہ(جو کہ امام علی نقی ع کی تعلیم کردہ زیارت ہے) میں "ساسة العباد" (۱) کے لقب سے تعبیر کرتے ہیں؛ ساسۃ العباد یعنی بہترین سیاست اورتدبیر کرنے والے؛ تو کبھی انکے بارے میں ہم گواہی دیتے ہیں وَجاهَدْتُمْ فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهادِهِ حَتَّىٰ أَعْلَنْتُمْ دَعْوَتَهُ، وَبَيَّنْتُمْ فَرائِضَهُ، وَأَقَمْتُمْ حُدُودَهُ (۲) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے خدا کی راہ میں ایسا جہاد کیا جیسا جہاد کرنے کا حق تھا یہاں تک کہ آپ لوگوں نے پروردگار کی دعوت کو آشکار کیا اور اور اس کے فرائض کو بیان کیا اور الھی حدود کو قائم کیا۔ اور نہ صرف یہ، بلکہ اگر قرآن کی طرف نگاہ کریں تو قرآن مجید نے جگہ جگہ پر انبیا کے سیاسی اقدامات اور انکے انقلابی طرز عمل کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا ہے: قرآن جناب ابراہیم خلیل اللہ (ع) کی سیاسی ترین قسَم کو یوں بیان کرتا ہے: وَ تَاللَهِ لَاَکِیدَنَّ أَصْنامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِینَ (۳) اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی سیاست اور تدبیر ضرور سوچوں گا۔ اور اگر بات جناب موسی اور ہارون علیہما السلام کی کریں تو خدا کی جانب سے انھیں سیاسی حکم دیا جاتا ہے کہ : إذْهَبْا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (۴) اے موسی اور ہارون ( معجزے کے اسلحے) سے لیس ہوکر فرعون کے مقابلے کے لیے جاو کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔

بات یہاں آکر ختم نہیں ہوتی، رسول خدا(ص) کو اشداء علی الکفار(۵) کے طور پر متعارف کروانا اور یہ حکم دینا کہ
فَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا کَبِیرًا(۶) اے رسول کافروں کی ہرگز اطاعت نہ کرو اور قرآن کے ذریعے ان سے بڑے پیمانے پر جھاد کرو۔

کیا یہ خالصتا سیاسی اور انقلابی احکامات نہیں ہیں؟کیا حضرت نوح کا کشتی بنانا کوئی غیر سیاسی اور غیر انقلابی عمل تھا ؟ کیا حضرت لوط کا گمراہ معاشرے سے مبارزہ اور ہدایت کی دعوت، غیر سیاسی عمل تھا؟ حضرت موسی کا عصا کو پھینک کر اژدھا بنانا کیا کوئی غیر انقلابی اقدام تھا ؟ اور پھر اسی طرح ۱۴ معصومین کی زندگی میں کس معصوم ع نے غیر انقلابی اور غیر سیاسی زندگی گزاری ہے؟ کیا ہم اہلبیت کی زندگی میں کوئی ایسا عمل تلاش کرسکتے ہیں جو غیر سیاسی اور غیر انقلابی ہو؟

کیا امام علی کی جنگ صفین، غیر سیاسی تھی؟ کیا فتح مکہ اور صلح امام حسن غیر سیاسی اقدامات تھے؟کیا بی بی فاطمة الزهراء س کا دربار میں احتجاج، ولی کی حمایت میں قربانی،شھداء کے قبور پر حاضری غیر سیاسی اعمال تھے ؟؟ کیا کربلا کی تحریک غیر سیاسی ہے ؟ کیا جناب زینب کا رسن بستہ ہوکر بازار کوفہ میں خطاب یا سید سجاد کا دربار یزید میں خطبہ، غیر سیاسی تھا؟ اور اگر امام موسی کاظم ع غیر سیاسی تھے تو حاکم وقت نے انھیں 14 سال اسیر کیوں کیا؟

تو پھر کیسے ہم اس آئیڈیالوجی اور اس خط سے صرف نظر کر سکتے ہیں؟ واقعا اگر کوئی انقلاب اور دینی سیاست سے روگردانی کر رہا ہے تو پھر انبیا اور اہلبیت علیہم السلام کی سیرت پر کیسے چل سکتا ہے یعنی اس کے پاس بچتا کیا ہے زندگی میں عمل کے لیے ؟

لہذا آج ہمیں اپنے آپ کو مناسکی اسلام کے پیروکار کے بجائے اس اسلام کا پیروکار بنانے کی ضرورت ہے جو اسلام ہمیں اپنے فرائض کو انجام دینے کی ترغیب دلاتا ہے ۔

خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں ہمیں حقیقی معنی میں خط اہلبیت علیہم السلام کو زندہ کرنے کی توفیق دے اور اس راستے میں "حتی الشهادة" ڈٹے رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔۔۔

تحریر: ابو ثائر مجلسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع :
۱.زیارة جامعه کبیرہ
۲.زیارت جامعہ کبیرہ
۳.سوره انبیاء (۵۷)
۴.سوره طه( ۴۳)
٥.سوره سورہ فتح (۲۹)
٦.سورہ فرقان (۵۲)

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 86