حضرت امام علی نقی (۱)

Sat, 02/05/2022 - 09:33
امام علی نقی

 امام علی نقی علیہ السلام,۵رجب  ۲۱۲ھ؁ کو مدینہ سے قریب صریا نامی جگہ پر پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد امام محمد تقی  ؑتھے اور مادر گرامی کا نام سمانہ تھا۔

کنیت ابو الحسن اور القاب نقی، ہادی، عالم، فقیہ، امین، موتمن، طیب، متوکل، عسکری اور نجیب تھے آپ کو ابو الحسن ثالث بھی کہا جاتا ہے۔

آپ ۳ ؍رجب  ۲۵۴  ؁ھ کو سامرہ میں شہید ہوئے اور وہیں آپ کو سپرد خاک کیا گیا اس وقت آپ کی عمر مبارک بیالیس سال تھی آپ نے ۸ سال اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کی اور ۳۳ سال خود منصب امامت پر فائز رہے۔ (۱)امامت کی دلیلیں 

یہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ ہر امام کی امامت کو مختلف دلائل و براہین سے ثابت کیا جاسکتا ہے منجملہ گذشتہ امام کے ذریعہ اپنے بعد والے امام کے بارے میں وضاحت کے ذریعہ ہم یہاں پر امام علی نقی ؑکی امامت سے متعلق امام محمد تقی  ؑکے بعض اقوال کی طرف اشارہ کریں گے۔ 

اسماعیل ابن مہران کا بیان ہے: پہلی مرتبہ جب امام ابو جعفر محمد تقی  ؑبغداد طلب کئے گئے میں آپ کی خدمت میں پہونچا اور عرض کیا کہ آپ پر قربان جاؤںمیں، آپ کے اس سفر سے میں خوف زدہ ہوں آپ کے بعد کون امام ہوگا۔ 
آپ نے میری طرف رخ کر کے فرمایا: جس سے تم ڈر رہے ہو وہ اس سال نہیں ہوگا۔

جب معتصم نے آپ کو بغداد بلایا میں پھر خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ آپ کو بغداد لے جایا جارہا ہے آپ کے بعد کون امام ہوگا۔ 

آپ نے اس طرح گریہ فرمایا: کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔ 

آپ نے فرمایا: اب خطرہ محسوس ہو رہاہے میرے بعد میرے بیٹے علی امام ہوں گے۔ (۲)

خیرانی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے بیان کیا میرے سپرد جو ذمہ داری تھی اس کے مطابق میں ہمیشہ ابو جعفر امام محمد تقی  ؑکے ساتھ رہتا تھا احمد ابن محمد ابن عیسی اشعری ہر رات سحر کے وقت آتا تھا تاکہ امام ابو جعفرؑ کی بیماری کے بارے میں معلوم کرے ۔ ہوتا یہ تھا کہ جب امام ابو جعفرؑ کسی کو میرے والد کے پاس بھیجتے تھے میں اور احمد ابن محمد اٹھ کر چلے جاتے تھے تاکہ وہ دونوں تنہا گفتگو کرسکیں۔

خیرانی کا بیان ہے ایک رات امام ابوجعفرؑ نے کسی کو میرے والد کے پاس بھیجا تو میں اور احمد ابن محمد اٹھ کر چلے گئے میرے والد نے امام ابو جعفرؑ کے نمائندہ کے ساتھ تنہائی میں گفتگو کی ۔ احمد وہیں ٹہلتا رہا اور ان دونوں کی باتیں سنتا رہا امام کے نمائندہ نے میرے والد سے کہا: تمہارے آقا نے سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ میری موت کا وقت آگیا ہے میرے بعد میرے بیٹے علی امام ہوں گے تمہارے اوپر جو ذمہ داریاں میرے سلسلہ میں تھیں بالکل اسی طرح میرے بیٹے علی کے بارے میں بھی عائد ہوں گی۔

امام کا قاصد پیغام کے بعد باہر چلا گیا احمد ابن عیسیٰ نے واپس آکر میرے والد سے کہا کہ امام کا قاصدکیا پیغام لے کر آیا تھا انھوں نے کہا خیر تھا۔ احمد نے کہا میں نے سب سن لیا ہے اور اس نے جو کچھ سنا تھا سب بیان کر دیا میرے والد نے کہا تم نے حرام کام کیا ہے تمہیںنہیں معلوم کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: {لاتجسسوا ۔۔۔} ؟ اب جب تم نے امام ؑکا پیغام سن لیا ہے تو اس کی حفاظت کرنا شاید ہمیں کبھی اس کی ضرورت پڑے لیکن اس سے پہلے کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔
خیرانی کا بیان ہے: دوسرے دن صبح میرے والد نے امام ؑکے پیغام کو دس جگہ لکھا اور ہر نسخہ امام کے ایک صحابی کے پاس امانت رکھ دیا اور کہا اگر مجھے موت آجائے تو اس خط کو کھول کر اس پر عمل کرنا۔ 

میرے والد کا بیان ہے:  جب امام ابوجعفرؑ کی شہادت ہوگئی تو میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا یہاں تک کہ میں نے سنا کہ قبیلہ کے بزرگ محمد ابن فرج کے پاس اکٹھا ہوئے ہیں اور ان سے امامت کے بارے میں بحث کرنا چاہتے ہیں محمد ابن فرج نے اس موضوع سے مجھے باخبر کیا اور مجھ سے کہا کہ میں بہت جلد اس کے پاس پہونچ جاؤں میں سوار ہوکر محمد ابن فرج کے پاس گیا اور دیکھا بہت سے بزرگ اس کے یہاں جمع ہیں اور باب  (امام ؑسے رابطہ کے ذریعہ) کے بارے میں غور فکر اور بحث کر رہے ہیں ان میں اکثر امامت کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا تھے میں نے جن لوگوں کے پاس امام ؑکے پیغام کو لکھ کر رکھا تھا ان سے کہا کہ وہ تحریر نکالیں ان لوگوں نے وہ تحریر پیش کی میں نے حاضرین سے کہا یہ پیغام وہ ہے جسے امام ابو جعفرؑ نے مجھے تم لوگوں تک پہونچا نے کا حکم دیا تھا۔

بعض لوگوں نے کہا: کاش ایک اور شخص اس کی گواہی دیدیتا میں نے کہا اتفاق سے خداوند عالم نے اس کا بھی انتظام کردیا ہے ابو جعفر اشعری نے بھی یہ پیغام سنا ہے وہ گواہی دے سکتا ہے۔ 

اس سے جاکر پوچھ لو حاضرین نے احمد ابن محمد سے دریافت کیا اس نے گواہی دینے سے انکار کر دیا میں نے اس کو مباہلہ کے لئے چیلنج کر دیا وہ مباہلہ سے ڈر گیا اور کہنے لگا میں نے بھی یہ پیغام سنا تھا مگر یہ ایسی فضیلت ہے جس کے بارے میں میں چاہتا تھا کہ کسی عرب کے پاس ہی رہے لیکن مباہلہ کے چیلنج کے سامنے میں نے گواہی چھپانا ضروری نہیں سمجھا اس کے بعد تمام حاضرین نے امام ابو الحسن ؑکی امامت کو قبول کرلیا۔ 

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں روایات بہت زیادہ ہیں اگر میں سب کو ذکر کرنا چاہوں تو ایک طویل کتاب تیار ہو جائے گی ابوالحسن امام علی نقی ؑکی امامت پر اجماع اور اس سلسلہ میں کوئی دوسرا دعویدار نہ ہونے کی وجہ سے مزید روایات اور دلیلوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ (۳)

صقر ابن ابی دلف کا بیان ہے : میں نے ابو جعفر محمد ابن علی سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے بعد امام میرا بیٹا علی امام ہوگا ان کا حکم میرا حکم ان کا قول میرا قول اور ان کی اطاعت میری اطاعت ہوگی ان کے بعد ان کے بیٹے حسن امام ہوں گے۔ (۴)
محمد ابن عثمان کوفی کا بیان ہے : میں نے امام ابو جعفرؑ سے عرض کیا اگر نعوذ باللہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں؟ 

امام ؑنے فرمایا: میرے بیٹے ابو الحسن کی طرف اس کے بعد آپ نے فرمایا: عنقریب حیرت اور سرگردانی کا زمانہ آئے گا ۔ 

میں نے عرض کیا: کہ اس زمانے میں ہم کہاں جائیں؟ آپ نے فرمایا: مدینہ ۔ 

میں نے کہا: کس مدینہ میں؟ 

آپ نے فرمایا: مدینہ ٔ رسولؐ۔ (۵)

امیہ ابن علی قیس کا بیان ہے: میںابو جعفر ثانیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ کا جانشین کون ہے؟ 

آپ نے فرمایا: میرا بیٹا علی۔ 

اس کے بعد آپ نے فرمایا: عنقریب حیرت اور سرگردانی کا زمانہ آنے والا ہے۔ (۶)

محمد ابن اسماعیل ابن بزیغ بیان کرتے ہیں:

 امام ابوجعفرؑ نے فرمایا: امامت میرے بیٹے ابو الحسن کو ملے گی جب کہ وہ ابھی سات سال کے ہیں اس کے بعد فرمایا ہاں سات سال بلکہ اس سے بھی کم جیسا کہ جناب عیسیٰ کے بارے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ (۷)

ہارون ابن فضل کا بیان ہے: میںنے ابو الحسن ؑسے اس روز ملاقات کی جس دن آپ کے والد ابو جعفرؑ کی شہادت ہوئی۔ 

آپ نے فرمایا: انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ میرے والد ابو جعفرؑ کی شہادت ہوگئی ہے آپ سے پوچھا گیا آپ کو کیسے معلوم کہ آپ کے والد کی شہادت ہوگئی؟ 

فرمایا:  خداوند عالم کے سلسلہ میں میرے ا ندر ایسا خضوع پیداہوگیا ہے جو پہلے نہیں تھا۔ (۸)

اصفہان کے کچھ لوگ جن میں ابو العباس احمد ابن نصر اور ابو جعفر محمد ابن علویہ بھی ہیں، بیان کرتے ہیں: اصفہان میں عبد الرحمن نام کا ایک شخص تھا جو شیعہ تھا اس سے کہا گیا کہ تم نے تمام لوگوں کے درمیان امام علی نقی ؑکی امامت ہی کو کیوں قبول کیا؟ 

اس نے کہا: کہ میں ان کے بارے میں ایسی چیز کا شاہد ہوں کہ جس سے مجھے ایمان حاصل ہوگیا۔ 

میں ایک غریب آدمی تھا البتہ گفتگو کرنے میں جری تھا اصفہان والوں نے ایک سال مجھے کچھ دوسرے افراد کے ساتھ انصاف طلب کرنے کے لئے متوکل کے پاس بھیجا ایک دن میں متوکل کے گھر میں تھا کہ اس نے حکم دیا علی ابن محمد ابن رضاؑ کو بلایا جائے۔ 

میں نے حاضرین میں سے ایک شخص سے پوچھا یہ کون ہیں؟ جن کو بلانے کا حکم دیا گیا ہے ایسا محسوس ہو رہا تھاجیسےمتوکل آپ کو قتل کرناچاہتاہےاس نےبتایاکہ یہ ایک علوی ہےرافضی جسکوامام مانتےہیں۔ 

میں نے سوچا میں یہیں رکوں گا تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھوں کہ یہ کون شخص ہے۔

تھوڑی دیر میں امام علی نقی ؑگھوڑے پر سوار وہاں تشریف لائے لوگوں نے آپ کے لئے راستہ چھوڑ دیا اور سب آپ کی طرف دیکھ رہے تھے میں نے جیسے ہی ان کو آتا ہوا دیکھا میرے دل میں ان کی محبت نے جگہ بنالی اور میں نے دعا کی کہ خدا متوکل کا شر آپ سے دور رکھے جب آپ میرے پاس پہونچے تو مجھ سے فرمایا کہ تیری دعا قبول ہوگئی تیری عمر طولانی ہوگئی اور تجھے کثیر مال و اولاد عطاہوگا۔

اس غیر متوقع خبر سے میرا بدن کانپ گیا لیکن میں نے اپنے ساتھیوں سے کچھ نہ کہا اس کے بعد میں اصفہان واپس آیا میرے پاس بہت زیادہ مال ودولت آگیا صرف گھر میں ہزار ہزار درہم ہیں اور گھر کے باہرجو اموال ہیں وہ الگ ہیں خداوند عالم نے مجھے دس بیٹے عطا کئے اب میری عمر ستر سال سے کچھ زیادہ ہے میں ان کو اپنا امام سمجھتا ہوں جن کو میرے مستقبل کا حال معلوم تھا اور ان کی دعا میرے بارے میں مستجاب ہوئی تھی۔ (۹)

تحریر: حمید الحسن زیدی

جاری ہے ۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔           
(۱)کافی، ج۱، ص۴۹۷، الارشاد، ج۲، ص۲۹۷، بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۱۷۔ ۱۱۳؛ الفصول المہمہ، ص۲۵۹؛ مطالب السؤول، ج۲، ص۱۴۴
(۲) الارشاد، ج۲، ص۲۹۸
(۳)کافی، ج۱، ص۳۲۴؛ الارشاد، ج۲، ص۳۰۰
(۴)بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۸
(۵)اثبات الوصیہ، ص۱۹۳
(۶)اثبات الہداۃ، ج۶، ص۲۰۹
(۷)اثبات الہداۃ، ج۶، ص۲۱۱
(۸)بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۳۸
(۹)بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۴۱

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 14 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 48