خلاصہ:روزے کا فلسفہ آیات اور روایات کی روشنی میں ۔
روزے کا حقیقی فلسفہ تو خدا ہی جانتا ہے اور اس کا اجر بھی اپنے ذمہ لیا ہے، ہم یہاں پر فقط آیات اور روایات کی روشنی میں مختصر طور پر بیان کریں گے ۔
اور اس کے لیے یہاں ہم تین مقدمہ بیان کریں گے جن سے ہماری بات واضح اور روشن ہوگی:
۱۔ ايمان اور اراده کی مضبوطی
امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام ) کا ارشاد ہے :(ان افضل ما توسل به المتوسلون الي الله سبحانه الايمان به و برسوله )؛ خدا تک پہنچنے کے لیے بہترین چیز خدا اور اس کے رسول پر ایمان اور اسکی وحدانیت کا اقرار ہے۔ اسی طرح نماز کا پڑھنا کہ جو دین کا ستون ہے، زکات کا ادا کرنا اور ماہ مبارک رمضان میں روزے رکھنا اور اور خود کو برائیوں سے روکنا، اور یہی وہ چیزیں ہیں کہ جو انسان کی بلندی کا سبب بنتی ہیں اور عذاب سے نجات دلاتی ہیں ۔
پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے : (عليکم بصيام شهر رمضان فان صيامه جنه حصينه) ؛ ماہ رمضان کے روزے تمہارے لیے ہیں اس مہینہ میں روزے رکھو کیونکہ روزہ، جہنم کی آگ سے بچاتا ہے ۔(۱)
۲۔اپنی اصلاح
عبادات میں اگر اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو روزے سے شروع کیا جائے ۔
امیر المؤمنین علي (علیہ السلام) اپنی اصلاح کے بارے ارشاد فرماتے ہیں:
اے بندگان خدا، اپنے آپ کو نافرمانی خدا سے بچاؤ اور حرام کاموں میں مبتلا نہ ہونا، اپنے نفس کو قابو میں رکھو، راتوں کو عبادتوں میں بسر کرو اور دنوں کی گرمی میں صبر کرو، اگر آسایش چاہتے ہو تو دنیا کی مشکلات کو برداشت کرو۔(۲)
خداوند متعال کا ارشاد ہے : «فان مع العسر يسرا، ان مع العسر يسرا»(۳)
ہاں زحمت کے ساتھ آسانی بھی ہے، بے شک تکلیف کے ساتھ سہولت بھی ہے ۔
اسی وجہ سے ہر پیاس کے بعد حوصلہ افزائی ہے اور ہر بھوک کے بعد اپنی اصلاح بھی ہے ۔
امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) روزہ دار کی یوں تعریف کرتے ہیں: (خمص البطون من الصيام )؛ ایسا انسان کہ جس کا شکم، روزہ کی وجہ سے اسکی پیٹھ سے ملا ہوا ہو، اسکے ہونٹ دعا کی کثرت سے خشک ہو چکے ہوں، شب بیداری کی وجہ سے رنگ زرد ہو گیا ہو، رخسار خشوع اور خضوع کی وجہ سے لٹک چکے ہوں۔(۴)
ایک اور جگہ یوں فرمایا: ( والصيام ابتلاء لاخلاص الخلق) ؛ خداوند متعال نے روزے کو اس لیے واجب کیا تاکہ اپنے بندوں کے اخلاص کو آزما سکے۔(۵)
روزے کی حالت میں نہ فقط اخلاص بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دین کی بھی آشمایش ہوتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں روزے کا فلسفہ جسم کی سلامتی ہے۔
توجہ رہے کہ روزہ جسمانی سلامتی کے ساتھ ساتھ انسان کی روحانی اور قلبی بیماریوں کا بھی علاج ہے ۔
۳۔ تکبر سے حفاظت
تکبر کی بنیاد رکھنے والا، شیطان ہے، اسی وجہ سے شیطان سے جھاد کرنا چاہیے اور ایسا کرنے والے کے عمل کو جہاد اکبر کہا گیا ہے ۔اس جہاد کی کوئی انتہا نہیں ہے اور اس میں صلح کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔
اسی لیے الہی پیغمبروں کے اہداف میں یہ ہے کہ انسانی تربیت کے لیے تکبر سے بچنا ضروری ہے ۔
امیر المؤمنین علی (علیہ السلام ) کا ارشاد ہے: روزہ ایسی عبادت ہے جو انسان کو تکبر سے بچاتی ہے ۔(۶)
نتیجہ
یہ تین اہم موضوعات ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ انسان کمال کی حد تک پہنچ سکتا ہے اگر وہ، اوپر بیان کی گئیں باتوں موضوع کا لحاظ کرے، اور اگر کوئی ان تینوں اعتبار سے کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے پہلی اور اہم چیز روزہ ہے یعنی روزہ دار انسان بڑی آسانی سے ان تینوں میدان میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
(۱)امالي ، شيخ صدوق ، ج۲، ص ۱۳۶
(۲) نهج البلاغه ، خطبه ۱۱۴
(۳)قرآن كريم ، سوره انشراح ، آيه ۵و۶
(۴) نهج البلاغه ، خطبه ۱۲۱
(۵)نهج البلاغه ، حكمت ۲۴۴
(۶) نهج البلاغه، خطبه ۱۹۲
Add new comment