خلاصہ: قرآن کو صحیح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ آیت جس کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اس کے بارے میں پوری معلومات ہوں کہ وہ کہا پر نازل ہوئی، کس وقت اور کن حالات میں نازل ہوئی، صرف آیت کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر اس کے معنی کو صحیح طریقہ سے سمجھا نہیں جا سکتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج کے اس دور میں جہاں ہر کوئی اپنی بات کو منوانےکے درپے ہے اور اس کے لئے قرآن کو بھی اپنی شخصی اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کررہا ہے، اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیت کو دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے، قرآن کو اس کے صرف اور صرف ظاہری الفاظ کے ذریعہ سمجھ کر۔ اور اس کام کے لئے قرآن کی آیات کی تفسیر کو بھی دیکھنا ضروری نہیں سمجھ رہا ہے۔
اس مختصر سے مقالہ میں اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ صرف قرآن کے ظاہری آیات کو دیکھ کر اس کے معنی کو سمجھا نہیں جاسکتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس آیت کے بارے میں یہ جانیں کہ وہ آیت کہاں اور کس ماحول میں اور کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بغیر ان چیزوں کو دیکھیں اس آیت کے معنی کئے جائینگے تو اس کے معنی پوری طریقہ سے صحیح سمجھ میں نہیں آسکتے، بلکہ اکثر اوقات اس کے معنی غلط سمجھے جاتے ہیں جس کی بناء پر لوگ اپنے عقیدوں کی بنیادیں رکھ لیتے ہیں اور بعد میں ان عقیدوں کو صحیح کرنا بھی کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔
خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: «وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ[سورۂ قمر، آیت۱۷] اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے»۔
تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی قرآن کے آسان ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ سننے والا اسے آسانی سے سمجھ سکے، اور اس طریقہ سے بیان کیا گیا ہے، جو عوام اور خواص سب کے سمجھ میں آئے[۱]۔
قرآن کو آسانی سے اس وقت سمجھا جاسکتا ہے جب انسان اپنی فطرت پر باقی رہے جس کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرمارہاہے: «فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[سورۂ روم، آیت۳۰] آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے »۔
اس آیت کے مطابق تمام لوگ اللہ کی فطرت پر پیدا کئے گئے ہیں، ہر کوئی اپنی قابلیت اور صلاحیت کے اعتبار سے قرآن کو سمجھ سکتا ہے، البتہ اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ قرآن کو وہ سمجھ سکتا ہے جو خدا کی بنائی ہوئی فطرت پر باقی ہو، لیکن جس انسان نے خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس خدا کی بنائی ہوئی فطرت سے دور کرلیا ہو، اس کے لئے قرآن سمجھنا کبھی بھی آسان نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس نے اپنے آپ کو خدا کی بنائی ہوئی فطرت سے دور کرلیا ہے۔ جس کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرمارہا ہے: «وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنينَ وَ لا يَزيدُ الظَّالِمينَ إِلاَّ خَساراً[ سورۂ اسراء، آیت:۸۲] اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کررہے ہیں جو صاحبان ایمان کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالمین کے لئے خسارہ میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہ ہوگا»۔
اس آیت کا پیغام یہ ہےکہ اگر کوئی شخص قرآن کے ظاہری الفاط کو اچھی طرح سمجھ لے لیکن اگر وہ شخص قرآن پر مکمل ایمان نہیں رکھتا، تو وہ ایمان کی کمی کی بناء پر کبھی بھی اس کے بلند مفاھیم کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لئے کہ قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ معصومین(علیہم السلام) سے ان آیات کے بارے میں وارد حدیثوں کے ذریعہ ان آیات کو سمجھا جائے جو "راسخون فی العلم" کے مصداق ہیں۔ اور تفسیر کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے علوم جیسے علم رجال(جس کے ذریعہ جھوٹی حدیثوں کا علم پیدا ہوتا ہے) سے واقف ہوں کیونکہ وہ اس کے ذریعہ اس کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کونسی حدیث صحیح ہے اور کونسی غلط۔
نتیجہ:
اس مختصر سی بحث کے ذریعہ ہم اس نتیجہ کو حاصل کر سکتے ہیں کہ قرآن کی آیات کے معانی کو بیان کرنا موقوف ہیں دوسے کئی علوم کے اوپر، بغیر ان علوم کو حاصل کئے ہوئے قرآن کی آیات کی تفسیر نہیں کی جاسکتی، اسی لئے جو بھی ان علوم کو حاصل کئے بغیر قرآن کی آیات کی تفسری کرتا ہے تو وہ اس حدیث کا مصداق بن جائیگا: «مَنْ قَالَ فِي القُرآنِ بِرأيِهِ ، فَلْيَتَبوأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ[۲] جو کوئی قرآن کو اپنی رأی سے بیان کرتا ہے، اس کو جھنم ڈالا جائیگا»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] ترجمه تفسير الميزان، موسوى همدانى، ج۱۹، ص۱۱۴. دفتر انتشارات اسلامى جامعهٔ مدرسين حوزه علميه قم، ۱۳۷۴ ش۔
[۲] بحار الانوار ، علامه مجلسى، ج۳۰، ص۵۱۱، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
Add new comment