دعا و زاری کا فلسفہ کیا ہے؟

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:

کیا دعا مانگنا اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتا ہے؟
کیا دعا مانگنا خدا کے معاملات میں بے جا دخل اندازی کا نام ہے؟
کیا دعا مانگنا ارادہٴ الٰہی پر راضی رہنے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے منافی ہے؟

ان سب سوالوں کے جوابات مقالہ ھذا میں پیش کئے گئے ہیں۔

دعا و زاری کا فلسفہ کیا ہے؟

دعا و زاری کا فلسفہ کیا ہے؟

دعا کی حقیقت، اس کی روح اور اس کے تربیتی اور نفسیاتی اثر سے بے خبر لوگ دعا پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔

کبھی کہتے ہیں: یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو فعالیت، کوشش، ترقی اور کامیابی کے وسائل کے بجائے اسی راستہ پر لگا دیتی ہے، اور انھیں سعی و کوشش کے بدلے اسی پر اکتفا کرنے کا سبق دیتی ہے ۔

کبھی کہتے ہیں: دعا اصولی طور پر خدا کے معاملات میں بے جا دخل اندازی کا نام ہے، خدا جیسی مصلحت دیکھے گا اسے انجام دے گا، وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمارے مصالح و منافع کو بہتر جانتا ہے، پھر کیوں ہر وقت ہم اپنی مرضی اور پسند کے مطابق اس سے سوال کرتے رہیں؟!

کبھی کہتے ہیں: ان تمام چیزوں کے علاوہ دعا؛ارادہٴ الٰہی پر راضی رہنے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے منافی ہے!

قارئین کرام ! جو لوگ اس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں وہ دعا اور تضرع و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی اور معنوی و روحانی آثار سے غافل ہیں، انسان ؛ ارادہ کی تقویت اور دکھ درد کے دور ہونے کے لئے کسی سہارے کا محتاج ہے، اور دعا انسان کے دل میں امید کی کرن چمکا دیتی ہے، جو لوگ دعا کو فراموش کئے ہوئے ہیں وہ نفسیاتی اور اجتماعی طور پر ناپسندیدہ عکس العمل سے دوچار ہوتے ہیں۔

ایک مشہور ماہر نفسیات کا کہنا ہے: ’’کسی قوم میں دعا و تضرع کا فقدان اس ملت کی تباہی کے برابر ہے، جس قوم نے دعا کی ضرورت کے احساس کا گلا گھونٹ دیا ہے وہ عموماً فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہ سکتی‘‘۔

البتہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ صبح کے وقت دعا اور عبادت کرنا اور باقی تمام دن ایک وحشی جانور کی طرح گزارنا، بیہودہ اور فضول ہے، دعا کو مسلسل جاری رہنا چاہئے، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اس کے عمیق اثر سے ہاتھ دھو بیٹھے۔(1)

جو لوگ دعا کو کاہلی اور سستی کا سبب سمجھتے ہیں وہ دعا کے معنی ہی نہیں سمجھے، کیونکہ دعا کا یہ مطلب نہیں کہ مادی وسائل و اسباب سے ہاتھ روک لیا جائے اور صرف دستِ دعا بلند کیا جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام موجودہ وسائل کے ذریعہ اپنی پوری کوشش بروئے کار لائی جائے اور جب معاملہ انسان کے بس میں نہ رہے اور وہ مقصد تک نہ پہنچ پائے تو دعا کا سہارا لے، توجہ کے ساتھ خدا پر بھروسہ کرے اپنے اندر امید کی کرن پیدا کرے اور اس مبداٴ عظیم کی بے پناہ نصرتوں کے ذریعہ مدد حاصل کرے۔لہٰذا دعا مقصد تک نہ پہونچنے کی صورت میں ہے نہ کہ یہ فطری اسباب کے مقابلہ میں کوئی سبب ہے۔

مذکورہ ماہر نفسیات لکھتا ہے:’’دعا انسان میں اطمینان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی پیدا کرتی ہے ، باطنی انبساط کا باعث بنتی ہے اور بعض اوقات یہ انسان کے لئے بہادری اور دلاوری کی روح کو ابھارتی ہے، دعا کے ذریعہ انسان پر بہت سی علامات ظاہر ہوتی ہیں ، جن میں سے بعض تو صرف دعا سے مخصوص ہیں، جیسے نگاہ کی پاکیزگی، کردار میں سنجیدگی، باطنی انبساط و مسرت، مطمئن چہرہ، استعداد ہدایت اور حوادث کا استقبال کرنے کا حوصلہ ، یہ سب دعا کے اثرات ہیں، دعا کی قدرت سے پسماندہ اور کم استعداد لوگ بھی اپنی عقلی اور اخلاقی قوت کو بہتر طریقہ سے کار آمد بنالیتے ہیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماری دنیا میں دعا کے حقیقی رخ کو پہچاننے والے لوگ بہت کم ہیں “۔(2)

قارئین کرام! ہمارے مذکورہ بیان سے اس اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ دعا تسلیم و رضا کے منافی ہے، کیونکہ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں دعا؛ پروردگار کے بے انتہا فیض سے زیادہ سے زیادہ کسبِ کمال کا نام ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان دعا کے ذریعہ پروردگار کی زیادہ سے زیادہ توجہ اور فیض کے حصول کی اہلیت اور استعداد حاصل کرلیتا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ تکامل کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ کسب کمال کی سعی قوانین آفرینش کے سامنے تسلیم و رضا ہے ، اس کے منافی نہیں ہے۔

ان سب کے علاوہ دعا ایک طرح کی عبادت، خضوع اور بندگی کا نام ہے، انسان دعا کے ذریعہ ذات الٰہی کے ساتھ ایک نئی وابستگی پیدا کرتا ہے، اور جیسے تمام عبادات ؛ تربیتی تاثیر رکھتی ہیں اسی طرح دعا میں بھی یہی تاثیر پائی جاتی ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا امور الٰہی میں مداخلت ہے اور جو کچھ مصلحت کے مطابق ہو خدا عطا کردیتا ہے، چنانچہ وہ لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہیں کہ عطیات خداوندی استعداد اور لیاقت کے لحاظ سے تقسیم ہوتے ہیں، جتنی استعداد اور لیاقت زیادہ ہوگی انسان کو عطیات بھی اس لحاظ سے نصیب ہوں گے۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’إنَّ عِنْدَ الله عَزَّ وَ جَلَّ مَنْزِلَةٌ لَاتَنَالُ إلاَّ بِمَساٴلةٍ (3) ”خداوندعالم کے یہاں ایسے مقامات اور منازل ہیں جو بغیر مانگے نہیں ملتے“۔

ایک دانشور کا کہنا ہے: جس وقت ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک ایسی لامتناہی قوت سے متصل کرلیتے ہیں جس نے ساری کائنات کی اشیا کو ایک دوسرے سے پیوستہ کر رکھا ہے“۔(4)

نیز موصوف کا کہنا ہے: ’’ آج کا جدید ترین علم یعنی علم نفسیات بھی یہی تعلیم دیتا ہے جو انبیاء کی تعلیم تھی، کیونکہ نفسیاتی ڈاکٹراس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دعا، نماز اور دین پر مستحکم ایمان؛ اضطراب، تشویش، ہیجان اور خوف کو دور کردیتا ہے جو ہمارے دکھ درد کا آدھے سے زیادہ حصہ ہے‘‘۔(5) (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

(1)نیایش“ تالیف :طبیب و روانشناس مشہور ”الکسیس کارل“

(2)نیایش الکسیس کارل

(3) اصول کافی ، جلد دوم، صفحہ ۳۳۸ ، بابُ فَضْل الدُّعَا ء والحِثُّ عَلَیہ ، حدیث۳

(4) آئین زندگی ، صفحہ۱۵۶

(5) آئین زندگی ، صفحہ ۱۵۲

(6) تفسیر نمونہ ، جلد اول ، صفحہ ۶۳۹

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 34