گھر میں سناٹا چھایا ہو اتھا بچے اور شوہر باہر گئے ہوئے تھے وہ تنہا تھی اور اپنے حجرے میں بند اپنے رب سے ملاقا ت کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر رہی تھی۔ اور اپنے مالک کی تسبیح و تہلیل میں مصروف تھی اس کے پردہ ذہن پر ماضی کے واقعات یکے بعد دیگر آتے جارہے تھے۔
اس کے بابا جب سے اس دنیا سے گئے تھے دنیا اس سے دشمنی پر اتر آئی تھی ابھی بابا کی وفا ت کو چند ہی دن گزرے تھے کہ اس نے دیکھا اس کا شوہر اس کا ہمدم اس کامونس نہ جانے کن سوچوں میں گم سر جھکائے گھر کے کونے میں بیٹھا ہے وہ قریب گئی۔
علی! نظریں اٹھاؤمیری طرف دیکھو۔
علی ! دیکھویہ کون ہے
علی یہ وہی ہے جس کو پاکر تم نے سجدۂ شکر ادا کیا تھا ۔
علی یہ وہی تو ہے جس سے تم سب کچھ بیان کر دیا کرتے تھے .
علی ! یہ وہی ہے جس کو دیکھ کر تم اپنا درد اپنا الم بھول جایا کرتے تھے مگر آج تمھیں کیا ہوگیا ہے ۔
تم اپنے غم کو مجھ سے نہیں بتاؤ گے تو پھرکس سے کہوگے ؟
علی ع نے اپنی آنکھوں میں اتر آنے والے آنسوؤں کو اپنے اندر پیتے ہوئے نظریں اٹھائیں... لرزتی پلکوں تھرتھراتے وجود کے ساتھ اپنی شریکۂ حیات کی طرف دیکھا
آنکھوں میں امید کے نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے دیئے روشن تھے
علی ان کو اسی طرح روشن دیکھنا چاہتے تھے سو جلدی سے اپنی نظریں جھکا لیں علی نہیں چاہتے تھے کہ ان کی جان سے زیادہ عزیز رفیقہ حیات اس سے زیادہ دکھ جھیلے بس اتنا کہا پارۂ قلب رسول!
اور آنسووں کی ایک لڑی فاتح خیبر کے رخساروں پر ڈھلکتی چلی گئی شاید علی کے یہ قطرہ ھائے اشک زبان بے زبانی سے فریاد کر رہے ہوں ۔۔۔ ائے دختر رسول علی کو معاف کرنا کہ تیرے رخسار پرطمانچہ لگا میں کچھ نہ کر سکا ،تیرے بازوؤں پر تازیانے مارے گئے مگر مجھ سے کچھ نہ ہو سکا۔ تیری پسلیاں ٹوٹ گئیں مگر میں کچھ نہ کرسکا ، میں کیا کروں جب تیرے اوپر یہ مظالم ہو رہے تھے تو میرے گلے میں رسی کا پھندا تھا میرے ہاتھ بندھے تھے۔ ۔۔۔
اپنے آنسؤوں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے علی بلک بلک کر رو رہے ہیں ۔ بس اتنا ہی کہااے مادرِ حسنین ! مجھے معاف کردو اور فرط غم سے علی نڈھال ہو گئے... اور وہ اس فولاد پیکر کو دیکھتی رہی جو اندر ہی اندر کرچی کرچی ہو چکا تھا۔ یہ تو ماضی کی ایک تصویر تھی جو پردہ ذہن پر آکراسےدرد کی کربناک اذیتوں میں تڑپتا چھوڑ کر چلی گئی تھی پھر نہ جانے کتنی ہی تصویر یں ان کے ذہن پرآتی رہیں اور وہ اندرونی در د سے تڑپتی رہی۔ اور پھر دھیرے دھیرے ماضی کی یادوں کے دریچے بند ہونے لگے اب ان کو ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی روح نکلنے ہی والی ہو انہوں نے اشارے سے خادمہ کو قریب بلایا اور کہا اب میں چند لمحوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتی جب میرے بچے آئیں تو پہلے ان کو کھانا کھلادینا پانی پلادینا اور اس کے بعد میرے بارے میں کچھ بتانا اور علی ... نہ جانے وہ کیا کہنا چاہتی تھیں کہ ان کی آواز نے ہونٹوں تک آتے آتے دم توڑ دیا اور ان کے تارہائے انفاس ٹوٹ گئے۔۔۔ اب وہ اس قید خانے سے رہا ہو کر اپنے بابا کے پاس جا چکی تھیں۔
جاری ہے۔۔
تحریر: نجیب الحسن زیدی
Add new comment