زحمتوں اور مصیبتوں پر صبر
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت ایسے زمانے میں ہوئی جو اسلام ، پیغمبر اسلام (ص) اور مسلمانوں کے لئے غربت اور پریشانی کا زمانہ تھا ولادت کے وقت مکہ کی عورتوں نے آپ کی والدۂ ماجدہ کابائیکاٹ کیا تو خداوند عالم نے جنت کی منتخب خواتین کو حوران جنت کے ہمراہ اپ کی ماں کی مدد کے لئے بھیجا آپ نے جب ماں کا دودھ چھوڑا اورصحن خانہ میں چلنا پھرنا شروع کیا اس وقت اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) اپنے سب سے مشکل دور سے گزر رہے تھے کچھ ہی عرصہ کے بعد شعب ابوطالب میں محصور ہو کر مکہ والوں کی طرف سے عام اقتصادی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا جہاں کھلے آسمان کے نیچے رات کی ٹھنڈ اور دن کی دھوپ کے ساتھ مکہ کے گرم پہاڑوں کے درمیان رہنا پڑتا اور کئی کئی دن فاقہ ہوتا یہاں تک کہ اس آزارو اذیت کو سہتے ہوئے ملیکۃ العرب جناب خدیجہ بیمار ہوئیں اور پھر وفات پاگئیں ۔ بے ماں کی فاطمہ کے لئے اب زندگی اور سخت ہوگئی ایک طرف باپ کی تنہائی اور غربت اس لئے کہ اسی سال حامی رسالت جناب ابوطالب (ع) کا بھی انتقال ہوگیا تھا اب رسول اللہ (ص) ہیں تنہائی ہے اور مکہ والوں کی بے وفائی اور آزارواذیت ۔
ایسے میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا خود ہر طرح کی زحمتوں کو سہنے کے باوجود اپنے بابا پیغمبر اسلام (ص) کی بہترین انیس و یاور قرار پاتیں باہر کےمصائب اور آزارواذیت کے بعد جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھرتشریف لاتے تو اپنی اس لخت جگر کی محبتوں کو دیکھ کر اپنا سارا غم بھول جاتے اور آپ بھی اپنے پورے وجود سے اپنی محبتیں پیغبر اسلام (ص) پر اس طرح نچھاور کرتیں کہ انھیں ماں کی ممتا کااحساس ہوتا اسی ممتا کو دیکھتے ہوئے آپ نے فرمایاتھا فاطمۃ ام ابیھا فاطمہ (س) اپنے باپ کی ماں ہیں ۔
مکہ معظمہ میں ایک بار پیغمبر اسلام (ص) مسجدالحرام میں نماز ادا کررہے تھے ابو جہل کچھ دور بیٹھا اپنے حوالیوں کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہاتھا اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج فلاں محلہ میں اونٹ نحر کیا گیا ہے تم میں سے کون ہے جو جاکر اس کی اوجھڑی اور غلاظت اس شخص پر ڈال سکتا ہے یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور بھاگ کر وہ اوجھڑی اور غلاظت لاکر سجدہ کی حالت میں رسول اسلام (ص) کے شانوں پر ڈال دی جب جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اس کا علم ہوا تو کمسنی کے باوجود آپ نے اپنے کو وہاں پہونچایا پیغمبر اسلام (ص) کے وجود مبارک سے وہ گندگی صاف کی اور اسے دشمنوں کی طرف پھینک کر ان کو برا بھلا کہا ۔
غرض کہ پیغمبراسلام (ص) کی اس چہیتی بیٹی نے خود مصائب وآلام سہتے ہوئے اپنے بابا پیغمبر اسلام (ص) کے مشن میں ان کا پورا ساتھ دیا ۔
اس کے بعد جب ہجرت کرکے قافلۂ اسلام مدینہ پہونچ گیا اور ہجرت کے اگلے سال جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام سے ہوئی تب بھی مسلسل جنگ و جہاد کے نتیجہ میں آپ کو سکون نصیب نہیں ہوا بنت رسول (ص) اپنے مختصر سے سامان جہیز کے ساتھ شوہر کے گھر پہونچیں تو گھر کے سارے کام کاج یہاں تک کہ آٹا تیار کرنے پانی بھرکر لانے جیسے تمام کاموں کی وجہ سے آپ کے ہاتھوں اور پسلیوں پر گھٹے پڑجاتے لیکن آپ حرف شکایت اپنی زبان پر نہ لاتیں ایک مرتبہ جناب سلمان کسی کام سے آپ کے گھر گئے دیکھا شہزادی چکی چلارہی ہیں اور چکی کے دستے سے خون بہ رہا ہے یہ دیکھ کر جناب سلمان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
آپ نے پوری زندگی مولائے کائنات سے کسی مشکل کی کوئی شکایت نہیں کی صپ فرماتی تھیں مجھے کسی ایسی چیز کے بارے میں فرمایش کرنے سے شرم آتی ہے جس کا پورا کرنا علی کے لیے مشکل ہو اس باب میں آپ کی سیرت کے بہت سے نمونے قابل ذکر ہیں جنھیں اختصار کےپیش نظر ذکر نہیں کیا جا رہا ہے ۔
جاری ہے ۔۔
تحریر: سید حمیدالحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
Add new comment