مسئلہ فلسطین پر آل سعود کے نقطہ نظر کی تاریخ، دشمن کے سلسلہ میں بے حسی سے لیکر تعلقات کو معمول پر لانے تک ۔
۴۰ ویں عیسوی عشرہ میں امریکن کمپنوں کے ذریعہ سعودیہ عربیہ میں تیل ( پٹرول) کے ذخائر ملنے اور ان کے نکالے جانے کی وجہ سے سعودی عربیہ کے اقتصاد اور ان کی اکنامک پر امریکا کے اثر و رسوخ زیادہ ہوگئے ، یہ چیز سبب بنی کہ عرب ممالک سعودیہ عربیہ پر اپنا دباو ڈالیں کہ امریکن کمپنیوں کی مراعاتوں کو باطل اور ختم کردے مگر سعودیہ عربیہ نے ان لوگوں کی ایک بھی نہ سنی اور ان کے مطالبات کے برخلاف امریکا سے تعلقات مزید بہتر اور مضبوط کرلئے ، سعودیہ نے امریکا اور انگلینڈ کے وسیلہ فلسطین کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کی مگر ان دونوں ممالک نے سعودیہ کو اس بیچ پڑنے سے منع کیا اور اسے اقوام متحدہ کے ذریعہ حل و فصل کرنے کی صلاح دی ۔
دوسری جانب اہل فلسطین غاصب صھیونیوں بر سر پیکار تھے مگر آل سعود فلسطینیوں ان کی حمایت اور انہیں اہمیت دینے کے بجائے معمولی رقم دینے پر اکتفا کرتے رہے ۔ انگلیند، فلسطینیوں کو بلوائیوں کا خطاب دیتا رہا اور سعودی بھی کھلم کھلا ان کی حمایت کرنے کو تیار نہ تھا۔
آل سعود، یہودیوں کی مخالفت کے باوجود فلسطینیوں اور یہودی اقلیتوں کی مختصر حمایت میں مصروف رہے تاکہ ان کے مخالفین یعنی ہاشمی خاندان علاقہ کے اثر و رسوخ پر قابض نہ ہونے پائے اور فلسطین کا مسئلہ انگیریزوں کی مرضی کے موافق حل و فصل ہوسکے۔
آل سعود نے۴۰ ویں عیسوی کے عشرہ میں عرب کمیونٹی کے اجلاس میں امریکا اور برطانیہ کے خلاف ہونے والی تمام تجاویز کی مخالف کی، فلسطینوں کے حق میں اپنی حمایت واپس لے لی اور کلی طور پر صھیونیوں کے ساتھ جنگ کا ہمیشہ مخالف رہا ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
گذشتہ قسطیں یہاں پڑھیں
http://www.ur.btid.org/node/6404
http://www.ur.btid.org/node/6406
http://www.ur.btid.org/node/6413
Add new comment