ال سعود
سن 1948ء میں غاصب صہیونیت کی طرف سے اعلان وجود کئے جانے بعد بعض عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کردیا تو سعودیہ کے حاکم وقت عبد العزیز نے مختصر تعداد میں اور وہ بھی غیر تربیت یافتہ فوجی مصر بھیجنے پر اکتفا کیا اور اس جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد سب سے پہلے سعودی حکام نے فلسطین کے مسائل سے خود کو الگ
مسئلہ فلسطین پر آل سعود کے نقطہ نظر کی تاریخ، دشمن کے سلسلہ میں بے حسی سے لیکر تعلقات کو معمول پر لانے تک ۔
امین الحسینی نے پوری کوشش کی کہ عالم اسلام کو اس جنگ و اختلاف میں شامل کرسکے اور خود کو عالم اسلام کے رھبر کے طور پر پیش کرے مگر یہ رھبری اور لیڈری شپ، سرزمین حجاز پر موجود حرمین شریفین کے متولی ابن سعود کیلئے جو خود کو عالم اسلام کا رھبر و لیڈر سمجھ رہے تھے گراں اور نا قابل تحمل تھی۔
ہم جب ال سعود کے نظریات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ حکومت عربستان سعودی نے ہمیشہ اپنے شخصی اور ذاتی نیز بڑی طاقتوں کے منافع کو ملت فلسطین کے منافع پر مقدم رکھا ہے اور ان کے مسلمہ حقوق پر بڑی طاقتوں کے منافع کو ترجیح دیا ہے۔