(حد سے زیادہ امیدوار قوم)
یہودیوں کے بقدر کوئی بھی گروہ یا دین، اسلام کا دشمن نہیں ہے، خداوند متعال نےاس سلسلہ میں مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ و الہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا «لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا؛[1] صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔»
یہودیوں کی اسلام سے دشمنی کی علت اور وجہ ان کی خام خیالی اور مکمل طورسے اپنے دین اور اپنی تحریف شدہ دینی کتاب کی پیروی ہے ، یہودی اس بات کے معتقد ہیں کہ ہم روی زمین پر سب سے بہتر اور افضل ترین قوم ہیں، اس حوالہ سے یہودیوں کی کتاب مقدس اور الھی کتاب بھی انسانوں کیلئے بہترین کتاب اور شفا بخش نسخہ ہے، قران کریم کا اس سلسلہ میں ارشاد ہے کہ «وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ؛ اور یہود و نصارٰی آپ سے (اس وقت تک) ہرگز خوش نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار نہ کر لیں ۔ » [2]
یہودیوں کا عقیدہ اور یہ نظریہ سبب بنا کہ وہ مسلمانوں کے طرز زندگی حتی کھانے پینے کے طور طریقہ کو بھی بدلنے کی کوشش کریں ، یہ تبدیلی اس قدر سنگین ہے کہ یہودی مسلمانوں کی زندگی کے تمام گوشے پر حتی بچوں کے نام کے انتخاب پر بھی اثر انداز ہوں اور انہیں تحت الشعاع قرار دیں ۔
استاد قرائتی اپنی کتاب تفسیر نور میں فرماتے ہیں کہ اس ایت کریمہ میں ایک عام پیغام موجود ہے کہ مسلمان جس قدر بھی دشمن کے مقابل اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں گے دشمن یعنی کفر و باطل اسی مقدار میں آگے بڑھے گا ، لہذا ہرگز دشمنان دین سے مصالحت اور سازباز نہ کرو۔
قبلہ کی تبدیلی کے بعد یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی زیادہ بڑھ گئی یہاں تک کہ بعض مسلمان چاہتے تھے ان کا قبلہ بیت المقدس ہی رہے تاکہ مدینہ میں موجود یہودیوں سے دوستی برقرار رہ سکے اور ان کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرسکیں، اس غافل کہ قبلہ میں تبدیلی، مسلمانوں سے دشمنی کیلئے یہودیوں کا فقط ایک بہانہ ہے ، کیوں کہ یہودی نہ فقط مسلمانان نہیں ہونا چاہتے تھے بلکہ مسلمانوں کو بھی ان کے دین منحرف اور مرتد کرنا چاہتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: سورہ مائدہ ایت ۸۲
۲: سوره بقرة آیت ۱۲۰
Add new comment