مرد و زَن کی میراث میں عدم مساوات پر مبنی شبہے کا ازالہ
عام طور پر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ نظام وراثت میں عورتوں کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہے، جبکہ عدل و انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ مرد و زن میں تفریق کے بغیر ہر ایک کو یکساں اور برابر حصہ ملے، مگر اس سلسلے میں حقیقت امر یہ ہے کہ: اولاً: اس طرح کا تصور اسلام کے نورانی احکام کے فلسفے اور میراث کے قواعد و ضوابط اور اس کی حکمت سے ناواقفیت اور لاعلمی کی بنیاد پر ہے اور ثانیاً: اس طرح کے وہم و گمان کرنے والوں نے عورت کی ذات کو صرف بہن اور بیٹی تک محدود کر رکھا ہے، جنہیں بیٹے اور بھائی کے مقابلے میں آدھا حصہ ملا کرتا ہے، جبکہ شریعت میں عورت کا دائرہ عام ہے اور اس میں بیٹی اور بہن کے علاوہ ماں، بیوی، دادی، پوتی وغیرہ بھی شامل ہوتی ہیں۔ لہذا ہم ان عورتوں کو میراث میں مردوں کے برابر یا کم یا زیادہ ملنے کے حوالے سے تفصیلی بحث سے پہلے سرسری طور پر ایک نگاہ عورتوں کی اس صورتحال اور میراث کے استحقاق پر ڈالتے ہیں، جن کا سامنا انہیں دین اسلام سے پہلے اور اس کے بعد دیگر مذاہب میں کرنا پڑتا تھا۔
جب ہم اس سلسلے میں یہودی مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں تو شریعت یہود میں عورتوں کو، خواہ وہ جس بھی روپ میں ہوں، صرف اسی صورت میں میراث کا مستحق قرار دیا جاتا تھا، جب مرنے والا اپنے پیچھے کسی مرد کو نہ چھوڑے، لیکن اگر مرنے والا اپنے پیچھے کسی مرد کو چھوڑے تو اس صورت میں عورتیں میراث سے یکسر محروم ہوتی تھیں۔([1]) یہودیوں کے علاوہ طورانیوں، کلدانیوں، سریانیوں، آشوریوں، یونانیوں اور اس طرح کے دیگر مذاہب و سماج میں بڑے بیٹے کو والد کا درجہ حاصل ہوتا تھا اور اگر بڑا لڑکا موجود نہ ہو تو ان میں جو زیادہ فہم و فطین اور عمر دراز ہو، وہ وارث ہوتا تھا۔ اس کے بعد دیگر بھائیوں کی نوبت آتی، پھر چچائوں کا درجہ ہوتا تھا، اسی طرح ان کے نزدیک درجہ بندی تھی اور اس میں اتنی توسیع تھی کہ سسرالی خاندانوں اور پورے قبیلے تک کو میراث میں درجہ بدرجہ حصہ دار سمجھا جاتا تھا، مگر عورتیں اور نابالغ بچے میراث سے محروم رہتے تھے۔( [2])
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک میراث کا کوئی مستقل نظام یا سسٹم نہیں تھا، بلکہ ان کے نزدیک میراث کا حق دار صرف وہی مرد ہوا کرتا تھا، جو ہتھیار اٹھا کر اپنے خاندان کا دفاع کرسکتا ہو اور جہالت پر مبنی ان کی تہذیب میں عورتوں اور بچوں کو میراث سے محروم رکھا جاتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں میں جنگ و جدال، لوٹ مار اور قتل و غارت گری عام تھی، اس لئے جو لڑنے کے قابل ہوتے، وہی میراث پانے کے بھی اہل سمجھے جاتے تھے۔ ان کے نزدیک عورتوں کو میراث کا مستحق قرار دینا تو دور کی بات بلکہ وہ زبردستی عورتوں کو بھی میراث سمجھ کر اس کے مالک بن بیٹھتے تھے۔ مثال کے طور پر باپ کی موت کے بعد وارث آتا اور باپ کی بیوہ پر کپڑا ڈال دیتا اور کہتا کہ میں نے اسے وراثت میں پا لیا ہے، گویا وہ جس طرح باپ کی میراث میں مال پاتا تھا، اسی طرح اس کی بیوہ کو بھی میراث میں حاصل کرتا تھا، اب اسے اس پر مکمل اختیار و ملکیت حاصل ہو جاتی تھی، وہ چاہتا تو خود اس سے شادی کرکے ماں کو مہر کے بغیر بیوی بنا لیتا، یا جس سے چاہتا اس سے شادی کر دیتا اور مہر خود رکھ لیتا، یا اس پر پابندی عاید کر دیتا، نہ خود شادی کرتا اور نہ کسی سے شادی کرنے کی اجازت دیتا،۔([3])
چنانچہ عورتوں پر روا رکھے جانے والے ان مظالم کا اسلام نے خاتمہ کرتے ہوئے اعلان کیا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا)([4]) "اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اپنی عورتوں کے جبراً وارث بنو اور اس نیت سے انہیں قید نہ رکھو کہ تم نے جو کچھ انہیں دیا ہے، اس میں سے کچھ حصہ واپس لے لو، مگر یہ کہ وہ مبینہ بدکاری کی مرتکب ہوں اور ان کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہے تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں تو ناپسند ہو، مگر اللہ اس میں بہت سی خوبیاں پیدا کر دے۔"
چنانچہ دین اسلام سے پہلے عورتوں کی غالباً یہی حالت تھی، انہیں اسی طرح کے ظلم و ستم کا سامنا تھا، اس بگڑے ہوئے نظام کی وجہ سے عورتوں کو سماج میں کوئی مقام حاصل نہیں تھا، غلامی کے طوق و سلاسل ان کی گردن پر پڑے تھے، وہ نہ اشیاء کی مالک ہوسکتی تھیں اور نہ ہی وراثت پاسکتی تھیں، بلکہ اموال کی طرح وہ خود دوسروں کی میراث بن جاتی تھیں۔ اس ظلم و ناانصافی کے اندھیرے میں اسلام کی شمع روشن ہوئی اور اس نے عدل و انصاف کے ذریعے عورتوں کو ان کا حق دیا اور یہ طے کر دیا کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں، جنہیں نہ پامال کیا جاسکتا اور نہ اس میں کمی کی جاسکتی ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اسلام میں میراث کی تقسیم کا نظام کسی انسان نے نہیں بلکہ خود خالق کائنات نے وضع ہے، اس لئے ہمیں غور کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس نظام میں عدل اور انصاف کے ساتھ بڑی باریکی اور حد درجہ توازن ہے، جس کی حکمت و گہرائی تک رسائی حاصل کرنا کسی عام انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: (آباؤُكُمْ وَ أَبْناؤُكُمْ لا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَريضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليماً حَكيما) "تمہیں نہیں معلوم تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں فائدے کے حوالے سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں، یقیناً اللہ بڑا جاننے والا، باحکمت ہے۔" ([5])
اسلام نے میراث کی تقسیم بندی میں حاجت و ضرورت کو مدنظر رکھا ہے، جسے حاجت زیادہ تھی، اسے زیادہ حصہ دیا اور جسے حاجت کم تھی، اسے کم حصہ دیا، اسی لئے لڑکوں کو زیادہ اور ماں باپ کو کم دیا ہے، کیونکہ لڑکے اور آنے والی نسل کو ابھی آگے کی زندگی کے مراحل طے کرنا ہیں، جبکہ والدین زندگی گزار کر اب رخت سفر باندھنے والے ہیں، اسی لئے چند صورتوں میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو دگنا دیا گیا ہے، کیونکہ لڑکا کل کسی کا شوہر بنے گا، جس کے مہر کی ادائیگی بھی اس پر واجب ہوگی اور بیوی کے اخراجات کی ذمہ داری بھی اس پر عائد ہوگی، پھر بچے ہوں گے، جن کے اخراجات اسی کو برداشت کرنے ہوں گے۔ دوسری طرف اس کی جو بہن ہے، وہ کل کسی کی بیوی بنے گی، جسے مہر بھی ملے گا اور اس کی تمام تر ضروریات و اخراجات کی ذمہ داری اس کے شوہر پر عائد ہوگی، اس پر کوئی مالی بوجھ آئندہ پڑنے والا نہیں ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دین اسلام میں وراثت کا دائرہ مالی امور تک محدود ہے، اس کے علاوہ کسی اور چیز کے اندر وراثت جاری نہیں ہوتی، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رائج تھا، اسی طرح اسلام نے زوجیت کے رابطے اور تعلق کی بھی قدر کرتے ہوئے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور زوجین کے درمیان زندگی میں جو الفت و محبت اور شفقت و رحمت کا معاملہ ہوتا ہے، اسے بھی وراثت کا سبب قرار دیا ہے اور بعض سابقہ قوانین کی طرح اسے نظر انداز کرنا پسند نہیں کیا ہے۔ اسلام نے قرابت و رشتہ داری کو بھی وراثت کا سبب قرار دیا ہے، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں خاندان کے افراد کے ساتھ رشتہ داروں کے گہرے روابط اور تعلقات ہیں، جس کا تقاضہ ان کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آنا ہے۔ انسان کو خاندان کے افراد کے ساتھ انس و محبت کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنے کی حاجت ہوتی ہے، اسی لئے خاندان کا ہر فرد دوسرے کی مدد کرنے، ان کی خدمت کرنے اور معاملات میں ہاتھ بٹانے پر سعادت و خوشی کا احساس کرتا ہے۔ تاہم ان قرابت داروں کے درمیان بھی تفاوت ہوتا ہے، سارے رشتہ دار یکساں نہیں ہوتے، اسی لئے اسلام نے وراثت میں اس کا بھی پورا پورا لحاظ رکھا ہے۔
قدیم مصری قانون میں تمام رشتہ داروں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، جس کی وجہ سے انہیں یکساں حیثیت حاصل تھی، لیکن اسلام نے اسے مسترد کیا اور واضح کیا کہ مورث اور رشتہ داروں کے درمیان کے تعلقات متفاوت ہوتے ہیں، ان میں کوئی قریبی رشتہ دار ہوتا ہے اور کوئی دور کا رشتہ دار۔ چنانچہ اس قرب و بعد کے لحاظ سے ان کے حق وراثت میں تفاوت رکھا گیا ہے۔ مثلاً لڑکوں کو والدین پر فوقیت حاصل ہوگی اور والدین کو بھائیوں پر اور رومی قوانین کے برعکس اسلام نے بھائیوں کے درمیان بھی مساوات و یکسانیت نہیں رکھی، بلکہ ان میں بھی اقویٰ و اقرب کی رعایت کی گئی ہے اور اسی بنا پر ان میں بھی تین درجے رکھے گئے ہیں۔ مادر زاد (احیافی) بھائی، پدر زاد (علاتی) بھائی اور سگے اور حققی بھائی۔ چنانچہ باب ارث میں موجود فقہی قاعدہ «الْمُتَقَرِّبُ بِالْأَبَوَيْنِ يَحْجُبُ الْمُتَقَرِّبَ بِالْأَبِ مَعَ تَسَاوِي الدَّرَجِ»([6]) کی روشنی میں ابوینی اور سگے بھائیوں کی موجودگی میں پدر زاد (علاتی) بھائی ارث حاصل نہیں کرسکتے۔([7])
اسلام کی نگاہ میں اولاد میں چھوٹے بڑے کی کوئی حیثیت نہیں، بھائیوں میں سارے بھائی اور بہنوں میں ساری بہنیں برابر ہیں، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، جبکہ یہودیت اور ہندو مذہب میں لڑکے کی موجودگی میں لڑکی وراثت کی مستحق نہیں ٹھہرتی اور لڑکے کے وجود کو لڑکی کی وراثت کیلئے مانع اور محجوب قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ میراث سے محروم ہوتی ہیں۔ مگر دین مبین اسلام نے ان کو محروم نہیں کیا بلکہ انہیں بھی وراثت کا حقدار گردانتے ہوئے لڑکوں کی طرح وارث قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لِلرِّجالِ نَصيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوالِدانِ وَ الْأَقْرَبُونَ وَ لِلنِّساءِ نَصيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوالِدانِ وَ الْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصيباً مَفْرُوضاً([8]) "اور جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں، اس میں مردوں کا ایک حصہ ہے اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں، اس میں تھوڑا ہو یا بہت، عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے۔"
چنانچہ اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے وراثت کا جو نظام بنایا ہے، وہ بہت ہی متوازن، جامع اور ایسا منفرد نظام ہے، جو انسانی معاشرے اور سماج اور اس کی ضروریات سے ہم آہنگ ہے، اور اس میں انسان کی حاجتوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اسلام کے نظام وراثت کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ انسان کا بنایا ہوا نہیں بلکہ خالق کائنات کا بنایا ہوا نظام ہے، جس میں مکمل توازن و اعتدال اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر میراث کے حصے مقرر کئے گئے ہیں۔ عورتوں کو اسلام نے وارث بنایا اور ترکہ میں اسے حصہ دار قرار دے کر یہ واضح کیا ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی نہ صرف انسان ہیں بلکہ وہ بھی مردوں کی طرح مال و زر کی مالک بننے اور اس میں تصرف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا اور اسے آباد کرنے کا انہیں مکلف بنایا ہے۔ اس کے اندر وہ صلاحیتیں رکھی ہیں، جس سے وہ اللہ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچا سکیں اور ان پر ڈالی گئی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں۔
یہ خلافت و ذمہ داریاں انسان کو ملی ہیں اور انسان صرف مرد کا نام نہیں بلکہ اس میں مرد و زن دونون شامل ہیں۔ فطری طور پر ہر انسان مال سے محبت کرتا ہے اور اس کا مالک بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس میں مرد و عورت کی تفریق نہیں پائی جاتی، یہ ہر دو صنف کی فطرت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ إِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَديدٌ ([9]) "اور وہ مال کی محبت میں سخت ہے۔" دوسری جگہ ارشاد ہے: وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ([10]) "اور میراث کا مال سمیٹ کر کھاتے ہو اور میراث کا مال سمیٹ کر کھاتے ہو۔" مال و زر کے تملک میں مردوں کی طرح عورتوں کو حق دے کر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ مردوں کی طرح وہ بھی نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کرکے حصہ لے سکتی ہیں اور اللہ کی رضا و خوشنودی اس راہ سے بھی حاصل کرسکتی ہیں۔
شارع اسلام کی جانب سے شریعت اسلامی میں مردوں کی طرح عورتوں کو میراث میں شریک قرار دینے میں ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ان ناانصافیوں کا سدباب ہو جائے، جس سے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی عورتیں دوچار ہیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی دیگر مذاہب کی طرح اگر ترکہ میں صرف مردوں کو حصہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں وارث بنایا جاتا اور عورتوں کو حق ارث سے محروم رکھا جاتا تو ایسی صورت میں مردوں کے اندر غرور و تکبر اور عورتوں پر برتری کا احساس اور انانیت و تسلط کا جذبہ اجاگر ہوسکتا تھا، جس سے وہ عورتوں پر ظلم و ناانصافی کرتے ہوئے ان کے حقوق کو پامال کرسکتے تھے، انہیں ان کےحقوق سے محروم رکھ سکتے تھے اور اپنی خواہشات کا تختہ مشق انہیں بنا سکتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی وارث بنایا اور ترکہ میں انہیں بھی حصہ دار بنایا، تاکہ مردوں میں احساس برتری کا جذبہ کبھی انگڑائی نہ لینے پائے اور اس کے علاوہ مردوں کے ساتھ عورتوں کو وارث بنانے کی ایک حکمت عملی یہ بھی ہے، تاکہ دولت و ثروت ایک ہی جگہ مرکوز ہوکر نہ رہ جائے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو وارث بنا کر دولت و ثروت کو ایک جگہ مرکوز ہونے سے روکا اور چاہا ہے کہ یہ مال مرنے والے کی اولاد و ذریت میں سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے اور وہ سب اس سے مستفید ہوں اور یہ متروکہ مال ایک دو یا چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہے۔ نیز عورتوں کو ترکہ میں حصہ دار قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے خاندانی تعاون اور تکافل کو بھی فروغ دینا چاہا ہے، تاکہ مرد ہو یا عورت، کوئی بھی محرومی و بے بسی کا شکار نہ ہو۔ گرچہ عورتوں کا میراث میں جو حق و حصہ ہے، وہ ان کی حالتوں کے اعتبار سے مختلف ہے، جس کی وجہ سے عام طور پر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ میراث میں مردوں کا حصہ عورتوں کے مقابلے میں دگنا ہے اور عورتوں کا مرد کے مقابلے میں آدھا، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ بہت سی صورتوں میں عورتوں کو مردوں کے برابر ملتا ہے اور بہت سی صورتوں میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ ملتا ہے۔ بہت سی صورتوں میں عورتوں کو تو حصہ ملتا ہے، مگر مردوں کو نہیں ملتا۔
صرف چار صورتیں ایسی ہیں، جن میں مردوں کو دگنا اور عورتوں کو مردوں کے مقابلہ پر نصف ملتا ہے۔ بعنوان مثال مورث اگر اپنے پیچھے والدین کو اور ایک لڑکا یا دو یا اس سے زیادہ لڑکیوں کو چھوڑتا ہے تو والدین میں سے ہر ایک کو سدس ملتا ہے، یہاں ماں اور باپ کا حصہ برابر ہے۔ دوسری مثال اخیافی (مادری) بھائیوں اور بہنوں کو انفرادی صورت میں برابر یعنی سدس اور تعدد کی صورتوں میں ثلث ملتا ہے۔ اگر کوئی عورت وفات پاتی ہے اور اپنے پیچھے شوہر، ماں، اخیافی (مادری) بھائی اور سگا بھائی چھوڑتی ہے تو شوہر کو نصف ملتا، ماں کو سدس ملتا، اخیافی (مادری) بھائیوں اور سگے بھائیوں کو ثلت ملتا ہے، اس ثلت کو وہ آپس میں برابر طور پر تقسیم کرنے کے پابند ہونگے۔ غرض میراث کے باب میں بہت سی صورتیں ایسی ہیں، جن میں عورتوں کو مردوں کے برابر حصہ ملتا ہے اور بہت سی صورتوں میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ ملتا ہے۔ جیسے کوئی عورت اپنے پیچھے شوہر کو، ماں باپ کو اور دو بچیوں کو چھوڑتی ہے تو دو ثلث تو دونوں بچیوں کو مل جائے گا اور باقی ایک ثلث شوہر اور ماں باپ کو ملے گا اور بعض صورتوں میں عورتوں کو تو وراثت میں حصہ ملتا ہے، مگر مردوں کو نہیں ملتا، جس کی تفصیل فقہی کتابوں میں بیان کی گئی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ میراث کی متعدد صورتوں میں سے صرف بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے کم، یعنی آدھا ہوتا ہے، باقی تمام صورتوں میں یا تو مردوں کے برابر ہے یا مردوں سے زیادہ ہے یا پھر عورتوں کے لئے حصہ ہے، مردوں کے لئے نہیں ہے۔ بنابر این اس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ وارثت کی تقسیم کا عمل اسلام کی نگاہ میں محض قانون و ضابطہ نہیں بلکہ خاندان کے مالیاتی سسٹم کا ایک اہم ستون ہے اور مال کے مالک کے مرنے کے بعد وہ اسے قریب و بعید کو ملحوظ رکھتے ہوئے تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس میں یہ نہیں دیکھتا ہے کہ وارث چھوٹا ہے یا بڑا۔ تاہم بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج ہمیں ایک عجیب و غریب صورتحال کا سامنا ہے کہ بہت سے علاقوں میں بہت سے اہل اسلام اپنی بہنوں کو یا خواتین کو حصہ نہیں دیتے اور نہ ہی بہنیں یہ سمجھتی ہیں کہ میکے سے ہمیں ماں باپ کے مال و دولت اور زمین و جائیداد میں حصہ ملے گا یا پھر اس سلسلے میں انہیں علم و آگاہی ہو بھی تو انہیں اپنے بھائیوں سے محبت کا ثبوت دینے کیلئے وراثت کے شرعی حصے سے دسبردار ہونا پڑھتا ہے۔
میراث کے باب میں پائے جانے والے اسلامی احکام کے برخلاف یہ تصور درحقیقت ہندوئوں کا ہے، جو عورتوں کو یہ کہہ کر میراث سے محروم کر دیتے ہیں کہ شادی کے وقت انہیں ان کا حق دے کر رخصت کر دیا گیا ہے، لیکن صریح طور پر تعلیمات الہیہ کی روشنی میں اللہ تعالی نے وراثت میں مردوں کی طرح عورتوں کیلئے بھی حق رکھا ہے۔ ہمیں الہیٰ تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے انہیں ان کا حق پورا پورا ادا کرنے کی فکر کرنی چاہیئے۔ ورنہ جہاں یہ ہماری آخرت کی بربادی کا سبب بنے گا، وہیں ہماری دنیا بھی برباد ہوگی اور خیر و برکت کو لے اڑے گی۔ ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیئے کہ ہمارے دین و مذہب نے ہمیں ایسا نظام وراثت عطا کیا ہے، جس میں ہر رشتہ دار کی فرق و مراتب کے ساتھ رعایت کی گئی ہے اور عورتوں کو ہر سطح پر عزت و رفعت سے سرفراز کیا ہے اور یہی ہمارے دین اور مذہب کا طرہ کا امتیاز ہے۔
تحریر: محمد علی جوہری
منبع: اسلام ٹائمز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1]۔ کتاب مقدس، ص253، چاپ انجمن، سفر العدد، باب 27، آیت نمبر6۔
[2]۔ عبدالعظیم جهیر، زنان و حق میراث، ص، کابل افغانستان: ریاست تدقیق و مطالعات علوم اسلامی،1399ش۔ چاپ اول۔
[3]۔ عبدالعظیم جهیر، زنان و حق میراث، ص23 -34، کابل افغانستان: ریاست تدقیق و مطالعات علوم اسلامی،1399ش۔ چاپ اول۔
[4]۔ سورہ نساء/19
[5]۔ نساء/11۔
[6]۔ محمد بن مكى عاملى، شهيد اول، اللمعة الدمشقية في فقه الإمامية؛ ص242 بیروت: دار التراث - الدار الإسلامية،1410ق، چاپ اول۔
[7]۔ علامہ حلی، قواعد الأحكام في معرفة الحلال و الحرام، ج3 ص369، قم: دفتر انتشارات اسلامى، 1413ق، چاپ اول۔
[8]۔ سورہ نساء/7۔
[9]۔ العادیات/8۔
[10]۔ فجر/19-20۔
Add new comment