معاویہ کی خطا کو اجتہادی خطا کیسے کہا جائے گا اور ان کے اجتہاد پر کیا دلیل ہے؟ حالانکہ ان کو یہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے : افسوس ابن سمیہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی اور ابن سمیہ عمار بن یاسر ہیں اور ان کو حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا۔
اگر آپ سلیم الطبع ہیں تو زرا دیر کو اس حدیث پر غور فرمائیں: حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا أبو معاوية ثنا الأعمش عن عبد الرحمن بن زياد عن عبد الله بن الحرث قال : اني لأسير مع معاوية في منصرفه من صفين بينه وبين عمرو بن العاص قال فقال عبد الله بن عمرو بن العاصي يا أبت ما سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول لعمار ويحك يا بن سمية تقتلك الفئة الباغية قال فقال عمرو لمعاوية ألا تسمع ما يقول هذا فقال معاوية لا تزال تأتينا بهنة أنحن قتلناه إنما قتله الذين جاؤوا به (مسند الإمام أحمد بن حنبل (عربی) تحقيق الشيخ / شعيب الأرنؤوط جلد 11 ص 42 ح 6499 تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح)ترجمہ :عبداللہ ابن حارث کہتا ہے کہ جب معاویہ جنگ صفین سے فارغ ہو کر آرہا تھا میں اس کے اور عمرو بن عاص کے درمیان چل رہا تھا ، عبداللہ ابن عمرو اپنے باپ سے کہنے لگا ابا ! کیا تم نے نبی ص کو حضرت عمار بن یاسر رض کے بارے یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ افسوس ! اے ابن سمیہ کے بیٹے ! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ عمرو نے معاویہ سے کہا : تم اس کی بات سن رہے ہو؟ معاویہ کہنے لگا تم ہمیشہ ایسی پریشان کن خبر لے کر آنا ، کیا ہم نے اسے شہید کیا؟ انہیں تو ان لوگوں نے شہید کیا جو انہیں لے کر آئے تھے۔ [مسند احمد بن حنبل (اردو) جلد 3 ص 504 ح 6499 سند صحیح ]
کیا سمجھے آپ؟
فائدہ :
1۔ حدیث رسولﷺ کے مطابق معاویہ اور ان کے حوالی موالی ساتھی باغی تھے، باقی لوگ اس کو جو بھی نام دیں۔
2۔ معاویہ اپنے فائدے اور لوگوں کو حقیقت سے دور رکھنے کے لئے حدیث رسولﷺ کے مفہوم کو تبدیل کرنے سے بھی باز نہیں آئے۔ جو اپنے فائدے کے لئے حدیث رسولﷺ کے معنی تبدیل کر سکتا ہے وہ کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔
تبصرہ:
اہل سنت کے بھیس میں چھپے نواصب ایک طرف صحابہ صحابہ کے نعرے لگاکر دھوکہ بازی سے کام لیتے ہیں اور دوسری طرف ایک باغی اور صحابہ کے قاتل گروہ کی وکالت کرتے ہیں، سچ ہے ان نواصب نے حدیثوں کے مفہوم تبدیل کرنے کا فن اپنے بزرگوں (خصوصاً معاویہ) سے پایا ہے۔
علامہ عینی کی نظر میں معاویہ کے اجتہاد کی حقیقت
”(علامہ عینی کہتے ہیں ) میں کہتا ہوں کہ حضرت معاویہ کی خطا کو اجتہادی خطا کیسے کہا جائے گا اور ان کے اجتہاد پر کیا دلیل ہے؟ حالانکہ ان کو یہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے : افسوس ابن سمیہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی اور ابن سمیہ عمار بن یاسر ہیں اور ان کو حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا “
شرح صحیح مسلم جلد 7 صفحہ 791
کیا کوئی اہل سنت اس اعتراض کا علمی جواب دے سکتا ہے؟
Add new comment