خلاصہ: عورت کو اللہ تعالیٰ نے عظیم مقام عطا فرمایا ہے جسے عورت پاکدامنی اور حیا کے ذریعے محفوظ کرسکتی ہے۔
عورت، اللہ تعالیٰ کے جمال، محبت، خلاقیّت اور ربوبیّت کا ایک جلوہ اور جھلک ہے جس کا انسان کی تعلیم و تربیت میں بنیادی کردار ہے۔ اگر خواتین اپنے اس مقام کو سمجھ لیں اور اس کو محفوظ کرنے کی کوشش کریں تو ان کی اپنی اور سارے معاشرے کی شخصیت اور تربیت کا سلسلہ سلامت رہے گا اور اچھے طریقے سے جاری رہے گا، لیکن اگر خواتین اپنی اس شخصیت کو نظرانداز کردیں اور اس کے تحفظ میں کوتاہی کریں تو ان کی حیثیت کو ناقابل تلافی نقصانات ہوں گے، ایسے نقصانات جو خود خواتین، گھرانے اور سماج کو تباہ کردیں گے۔
سابقہ اقوام کے تجربات بھی یہی نشاندہی کرتے ہیں کہ جب بھی خواتین نے اپنے مقام کی بلندی اور اصلی ذمہ داری کو سمجھ لیا اور اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی تو ان کا مقام محفوظ ہوگیا اور معاشرے کی سالمیّت باقی رہی اور سماجی نقصانات کم ہوگئے۔
نسل افزائی میں عورت کی عظیم ذمہ داری ہے اور پاکیزہ اولاد کی پیدائش اور پرورش ماں کی پاکدامنی کی مرہون منّت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم اور ذہن کی خلقت اس کی اس ذمہ داری کے مطابق کی ہے، اسی لیے عورت کا نظام خلقت میں انوکھا مقام اور عالی مرتبہ ہے، جس تک عورت انتہائی پاکیزگی، پاکدامنی اور حیا کے ذریعے پہنچتی ہے، لہذا قرآن کریم اور دین اسلام کی نظر میں مرد و عورت دونوں، معنوی اقدار کو حاصل کرسکتے ہیں۔
مرد و عورت کی شخصیت اور معنوی مقام کا سب سے بنیادی معیار، ان کا ایمان اور نیک عمل ہے، سورہ نحل کی آیت ۹۷ میں ارشاد الٰہی ہے: "مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ"، "جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے"۔
* اقتباس از: آسیب شناسی شخصیت زن، محمد رضا کوہی، ص۱۵۔
* اقتباس از: مبانی خصیت زن از دیدگاہ اسلام، دکتر محمد علی مہدوی راد، فتحیہ فتاحی زادہ۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment