خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ایسی نمونہ عمل خاتون ہیں کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ آپؑ کے فرامین اور سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گھرانے کے نظام کا تحفظ کریں۔
نمونہ عمل کا انسان کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ہے کیونکہ نمونہ عمل کے ذریعے تعلیم و تربیت ایسا بہترین طریقہ کار ہے کہ بہت سارے مسائل اور مشکلات جو معاشرے میں پیدا ہوتی ہیں، ان کی وجہ یہ ہے کہ ان مشکلات میں گھرے ہوئے لوگوں نے کسی صحیح اور برحق شخصیت کو نمونہ عمل نہیں اختیار نہیں کیا کہ جس کے اعمال اور کردار کو حق و باطل کا معیار سمجھ کر اپنے اعمال اور کاموں کو اس کے مطابق انجام دیں تا کہ اس نمونہ عمل نے جس کام سے منع کیا ہو اس کام سے پرہیز کریں اور جو اس نے حکم دیا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔
چودہ معصومین (علیہم السلام) سب لوگوں کے لئے ہر زمانے میں نمونہ عمل ہیں، ان چودہ معصومین (علیہم السلام) میں سے ایک عظیم ہستی اور مقامِ عصمت پر فائز، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں جن کا کلام، عمل اور سیرت، لوگوں کے لئے معیارِ زندگی اور نظامِ حیات ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ارشاد فرماتی ہیں: "ادْنى ما تَكُونُ مِنْ رَبِّها انْ تَلْزَمَ قَعْرَ بَيْتِها"، "(عورت کو) سب سے زیادہ جو چیز اپنے ربّ کے قریب کرتی ہے یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے (خانہ داری اور اولاد کی تربیت کرے)"۔ [بحارالانوار، ج۱۰۳، ص۲۵۰]
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) عورتوں کے لئے، خانہ داری، اولاد کی تربیت اور حجاب کا خیال رکھنے کے لئے بہترین نمونہ عمل ہیں۔ آپؑ نے ساری زندگی اپنے پردے اور حجاب کا بہترین طریقے سے خیال رکھا اور آپؑ فرماتی ہیں: "خَيْرٌ لِلنِّسَاءِ أَنْ لَا يَرَيْنَ الرِّجَالَ وَ لَا يَرَاهُنَّ الرِّجَالُ"، "عورتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ (نامحرم) مردوں کو (ضرورت کے بغیر) نہ دیکھیں اور (نامحرم) مرد بھی انہیں نہ دیکھیں"۔ [بحارالانوار، ج۴۳، ص۵۴]
لہذا خواتین کو چاہیے کہ پردہ اور حجاب کرتے ہوئے اپنے آپ کو نامحرم مردوں سے چھپائیں۔ اسلام کے دشمن دور حاضر میں، عورتوں کے حجاب اور پردے کے خلاف طرح طرح کی شیطنت اور سازشوں میں مصروف ہیں تا کہ مسلمان عورتوں سے حجاب اور پردے کی سنّت چھین کر، گھروں کی بنیادوں کو اکھیڑ کر اور لوگوں کے دین کو تباہ کرکے اپنے ناپاک اور کافرانہ مقاصد تک پہنچ جائیں۔ خواتین اپنے حجاب سے دشمن کی اس یلغار کو بے اثر کرسکتی ہیں۔
* بحارالانوار، علامہ مجلسی، موسسۃ الوفاء، ج۱۰۳، ص۲۵۰۔ ج۴۳، ص۵۴۔
Add new comment