خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی تشریح میں ضمنی طور پر یہ بیان کیا جارہا ہے کہ دشمن کا شکوک و شبہات پھیلانے سے مقصد، انبیاءؑ کی دعوت کو بے اثر کرنا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: "وَ قَامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدَایَۀِ، فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغَوَایَةِ، وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعَمَایَةِ، وَهَدَاهُمْ اِلَی الدِّینِ الْقَوِیمِ، وَدَعَاهُمْ اِلَی الطَّرِیقِ الْمُسْتَقِیمِ"، اور (رسولؐ اللہ) لوگوں میں ہدایت کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے، تو ان کو گمراہی سے نجات دی، اور انہیں اندھے پن سے (نکال کر) بینائی (کی طرف) لائے، اور انہیں مضبوط دین کی طرف ہدایت کی، اور انہیں راہِ مستقیم کی طرف پکارا"۔
وضاحت:
جب قرآن کریم کی آیات نازل ہوتی تھیں تو مخالفین شور مچا دیتے تاکہ لوگ، اللہ تعالیٰ کے کلام کو نہ سنیں، کیونکہ توجہ سے سننا ہی کافی تھا کہ پاک ضمیر صحیح فیصلہ کردیں۔ آجکل بھی شبہ ڈالنے والوں کے شکوک و شبہات، اُن کافروں کے شور مچانے کی طرح ہیں اور شبہ ڈالنے والوں کا مقصد ہی یہی ہے کہ لوگوں کو حق سے دور کریں اور انہیں حق کی بات سننے نہ دیں۔ جہاں کان فضول باتیں یا مہمل آوازیں سننے کے لئے مائل ہوتے ہیں، وہاں کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا، لیکن جب دین کی بات سننے کا موقع آتا ہے تو شکوک و شبہات پھیلانے کے ذریعے، دین کی بات سننے اور دین کی طرف مائل ہونے سے رکاوٹ بنتے ہیں۔ قرآن کریم سورہ ملک کی آیت ۱۰ میں جہنمیوں کی یہ بات بیان فرماتا ہے: "لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ"، "کاش ہم (اس وقت) سنتے یا سمجھتے تو (آج) دوزخ والوں میں سے نہ ہوتے"۔
اگر آدمی خیالی اور دنیاوی خواہشات سے ذرا سی دوری اختیار کرے اور اپنے دل اور عقل کے کان کے ذریعے انبیاء (علیہم السلام) کی بات کو سنے تو ان کی طرف رغبت کرے گا، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کی بات، اچھائیوں اور نیکیوں کی طرف دعوت سے لبریز ہے۔
*احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* ماخوذ از: پیامبر شناسی، ص۶۴، محمد علی مجد فقیہی۔
Add new comment