خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی تشریح میں ضمنی طور پر انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت سے لوگوں کا برتاؤ بیان کیا جارہا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: "وَ قَامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدَایَۀِ، فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغَوَایَةِ، وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعَمَایَةِ، وَهَدَاهُمْ اِلَی الدِّینِ الْقَوِیمِ، وَدَعَاهُمْ اِلَی الطَّرِیقِ الْمُسْتَقِیمِ"، اور (رسولؐ اللہ) لوگوں میں ہدایت کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے، تو ان کو گمراہی سے نجات دی، اور انہیں اندھے پن سے (نکال کر) بینائی (کی طرف) لائے، اور انہیں مضبوط دین کی طرف ہدایت کی، اور انہیں راہِ مستقیم کی طرف پکارا"۔
وضاحت:
آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اکثر لوگوں کا انبیاء (علیہم السلام) سے سامنا کرتے ہوئے فرار اور رُخ موڑنے والا برتاؤ تھانہ کہ ان کی طرف مائل ہونے اور ان کی بات کو ماننے والا برتاؤ۔ مثلاً: حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال لوگوں کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے، لیکن ان میں سے صرف تھوڑے سے افراد ایمان لائے۔
حضرت موسی (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل، فرعون کو غرق ہوتے دیکھنے، دریائے نیل سے گزر کر نجات پانے اور حضرت موسی (علیہ السلام) سے اتنی آیات اور معجزات دیکھنے کے باوجود جب اس گاؤں سے گزرے جس کے لوگ بتوں کی پوجا کررہے تھے تو بنی اسرائیل نے بھی پوجا کرنے کے لئے حضرت موسی (علیہ السلام) سے ویسے بت طلب کیے، یہ بات ان کی انتہائی جہالت کی نشاندہی کرتی ہے۔
اسی طرح دوسری گمراہ اقوام کا اپنے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت سے رُخ موڑنا، یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آخری آیت یعنی آیت ۱۲۹ جو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں نازل ہوئی، اس کے پہلے حصہ میں یہ ارشاد الٰہی ہے: "فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ"، "(اے رسول(ص)) اگر اس پر بھی یہ لوگ روگردانی کرتے ہیں تو کہہ دیجیے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے"۔
*احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* ماخوذ از: پیامبر شناسی، ص۶۲، محمد علی مجد فقیہی۔
Add new comment