خلاصہ: ہم اپنا دین و مذہب اہل بیت (علیہم السلام) سے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔
ہر آدمی کو اس بات پر توجہ کرنی چاہیے کہ اس نے اپنا دین و مذہب کس سے لیا ہے اور کن افراد کو اپنا رہنما اور نمونہ عمل بنایا ہوا ہے۔ شیعہ کا یہ طرّہ امتیاز ہے کہ اس نے ان افراد کو اپنا رہنما سمجھا ہے جو ہر طرح کی ناپاکی سے پاک و پاکیزہ اور مطہّر ہیں، یہ رہنما وہی چودہ معصومین (علیہم السلام) ہیں جن کی عصمت کی گواہی آیت تطہیر دے رہی ہے۔ سورہ احزاب کی آیت ۳۳ میں ارشاد الٰہی ہے: "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"، "اے اہل بیت! اللہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس (آلودگی) کو دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے"۔
اسی لیے اہل بیت (علیہم السلام) کا حکم اللہ کا حکم ہے اور جس کام اور بات سے یہ حضراتؑ لوگوں کو منع کریں درحقیقت اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو منع کیا ہے۔
جب تمام مذاہب پر نظر دوڑائی جائے تو صرف مذہب شیعہ بارہ امامی ہے جس کی تعلیمات یعنی عقائد، شرعی احکام اور اخلاقی مسائل، قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کے فرمان اور حکم کے مطابق ہیں۔
یہی مطہّر حضراتؑ، اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کو کسی کمی یا زیادتی کے بغیر لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ لہذا دین، قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) سے ہی لینا چاہیے اور جو اِن مطہّر ہستیوں کی مخالفت اور مقابلے میں دین لوگوں کو پیش کرتے ہیں ان سے دوری اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ ہدایت یافتہ ہی ہدایت کرسکتا ہے اور جس نے اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کیا وہ ہدایت پانے کے لائق ہے، ہدایت کرنے کے لائق نہیں، وہ کسی کی ہدایت نہیں کرسکتا، بلکہ لوگوں کو مزید گمراہ کرے گا۔
بنابریں انسان ہدایت تب پاسکتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) سے تعلیم حاصل کرے نہ یہ کہ اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمنوں اور مخالفوں سے علم حاصل کرے، کیونکہ یہ دشمن انسان کی سابقہ ہدایت کو تباہ کرتے ہوئے اسے گمراہ کردیں گے اور دن بدن اسے مزید گمراہی میں غرق کرتے جائیں گے چاہے ظاہری طور پر عالمانہ باتیں کریں، مگر یہ علم کا خول ہے جس میں ان کی جہالت اور گمراہی چھپی ہوئی ہے۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment