قرآن کے قصوں میں ہدایتی پہلو کا مقصد ہونا

Thu, 08/02/2018 - 15:58

خلاصہ: قرآن کریم نے جو قصے بیان فرمائے ہیں، ان میں انسان کی ہدایت کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے، قصوں کے حصوں کو چھوڑ دیا ہے اور بیان نہیں کیا۔

قرآن کے قصوں میں ہدایتی پہلو کا مقصد ہونا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کریم بعض اوقات ایک قصہ کو عروج تک پہنچا دیتا ہے اور پھر اسے اچانک چھوڑ دیتا ہے۔ حضرت موسی (علیہ السلام) کسی کو مار ڈالنے کی وجہ سے فرعون سے فرار کرگئے، دس یا اٹھارہ سال حضرت شعیب (علیہ السلام) کی پناہ میں رہے۔ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس سے واپس آرہے تھے، تو کیونکہ پہلے فرار کرچکے تھے تو اب غیرمعمول راستے سے آرہے تھے۔ کسی جگہ پر آسمان سے گرج چمک ہوئی اور بارش برسنے لگی، بہت سردی ہوگئی، صورتحال یہ بن گئی کہ راستہ گم کر بیٹھے، حضرت موسی (علیہ السلام) کی زوجہ حاملہ تھیں تو اس وجہ سے مشکل مزید بڑھ گئی۔ جتنی بھیڑیں حضرت موسی (علیہ السلام) کے ساتھ تھیں، گرج چمک اور سردی کی وجہ سے بکھر گئیں، ہر ایک کسی سمت جانے لگی۔ آپؑ اپنا مال اور سرمایہ بھی کھورہے تھے اور آپؑ کی اہلیہ بھی نقصان کی زد میں تھیں۔ ایسے حالات میں انسان کو کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟ قرآن کریم نے بہت خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے، سورہ طہ کی آیت ۱۰ میں ارشاد الٰہی ہے: "رَأَىٰ نَاراً فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَاراً لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدىً"، "جب انہوں نے آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم (یہیں) ٹھہرو۔ میں نے آگ دیکھی ہے شاید تمہارے لئے ایک آدھ انگارا لے آؤں یا آگ کے پاس راستہ کا کوئی پتہ پاؤں؟"۔ اس آگ سے دو فائدے حاصل ہوسکتے تھے: راستہ معلوم کرنا اور سردی سے نجات پانا۔ جب آپؑ آگ تک پہنچتے ہیں تو اچانک قصہ بدل جاتا ہے، اگلی دو آیات میں ارشاد ہورہا ہے: "فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَىٰ . إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً"، "تو جب اس کے پاس گئے تو انہیں آواز دی گئی کہ اے موسیٰ! میں ہی تمہارا پروردگار ہوں! پس اپنی جوتیاں اتار دو (کیونکہ) تم طویٰ نامی ایک مقدس وادی میں ہو"۔ اس کے بعد قرآن آپؑ کے گھروالوں کی صورتحال کو بیان نہیں فرماتا، کیونکہ قرآن کا مقصد ہدایت ہے تو جہاں ہدایت تک بات پہنچے اسے بیان فرماتا ہے اور باقی کو چھوڑ دیتا ہے۔ لہذا قرآن میں تاریخِ انبیاءؑ، انسان کے روح کی حیات کی تاریخ ہے اور انسان کی روح کی حیات، زمان سے بالاتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اقتباس از کتاب: سیرہ تربیتی پیامبرن، حضرت آدم علیہ السلام، محمد رضا عابدینی، ص42، 43،44]
[آیات کا ترجمہ از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 108