خلاصہ: بنی امیہ کے جد، امیہ کی جناب ہاشمؑ کے مقام و منصب پر حسد کرنا اور فیصلہ کروانے کی وجہ سے شام سے جلاوطن ہونا، معاویہ، یزید اور بنی امیہ کی اہل بیت (علیہم السلام) سے دشمنی کی جڑ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخی حادثات و واقعات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ مطالعہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ تاریخی واقعہ، کئی واقعات کی کڑیوں کا آپس میں جوڑنے سے پیش آتا ہے، ہر چھوٹے اور بڑے حادثہ کی جڑ ماضی میں ہوتی ہے، جیسا کہ اس کے کئی نتائج اور انجام مستقبل میں بھی رونما ہوتے ہیں۔ حادثہ جتنا عظیم اور پیچیدہ ہو، اس کی جڑ کی شناخت کرنے کے لئے زیادہ غور و خوض کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے عاشورا جو کائنات کے عظیم واقعات میں سے ہے، اس کی پہچان کے لئے بھی یہی ضابطہ نافذ ہوتا ہے۔ایسا نہیں کہ اس واقعہ کو اس کے وقوع پذیر ہونے کے زمانہ یعنی ۶۱ ہجری کی حد میں ہی تجزیہ و تحلیل کیا جائے۔ لہذا اس مضمون میں ماضی کے حادثات کے پیش نظر اس عظیم حادثہ کا مختصر تجزیہ پیش کیا جارہا ہے:
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ قبیلہ قریش میں سے تھے، لیکن اسلام کے حددرجہ سخت دشمن بھی اسی قبیلہ سے کھڑے ہوئے اور انہوں نے آنحضرتؐ اور آنحضرتؐ کی آلؑ سے دشمنی، عداوت اور تخریب کاری کرنے کی کوشش و محنت میں ہرگز کوتاہی نہیں کی، خاص کر آنحضرتؐ کے وصال کے بعد ایسے دردناک اور تلخ ظلم ڈھائے گئے جنہیں فراموش کرنا تاریخ کو ذرہ برابر گوارا نہیں ہے۔
بنی ہاشم اور بنی امیہ کے دو قبیلے اسی قبیلہ قریش میں سے تھے جن کے درمیان انتہائی خونریز جھڑپیں ہوتی رہیں۔ اسلام کے ابتدائیہ دور کی جنگوں کے مطالعہ اور چھان بین سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بنی ہاشم پر جب بھی ظلم کیا گیا تو ظالموں کے سردار بنی امیہ میں سے تھے۔
عبدمناف، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تیسرے جد، حالانکہ خوش مزاجی اور نیک صفات کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں خاص مقام کے حامل تھے، لیکن ان کا ہرگز اپنے بھائی عبدالدار سے کعبہ کے عظیم عہدوں پر قبضہ کرنے کے لئے مقابلہ نہیں تھا۔ ان کے باپ قُصىّ کی وصیت کے مطابق حکومت، ان کے بھائی عبدالدار کے پاس تھی۔ لیکن ان دو بھائیوں کی وفات کے بعد، ان کی اولاد کے درمیان ان عہدوں پر قبضہ کرنے میں اختلاف ہوگیا۔ عبدمناف کے دو بیٹے جن کا نام ہاشم اور عبدالشمس تھا، دونوں بھائی ایک ساتھ پیدا ہوئے تھے اور ایک دوسرے سے چپکے ہوئے تھے۔ ہاشم کی انگلی، عبدالشمس کی پیشانی پر چپکی ہوئی تھی، الگ کرتے ہوئے بہت خون بہا اور لوگوں نے اسے بری علامت جانا۔[1]
تاریخ میں ہاشم کی اولاد کو بنی ہاشم اور عبدالشمس کی اولاد کو بنی امیہ کہا جاتا ہے۔ جناب ہاشمؑ کا جوانمرد ہونا، کرم نوازی اور عطا و سخاوت لوگوں کی معاشی زندگی میں اثرانداز ہوئی اور آپؑ کا اہل مکہ کی تجارت کو فروغ دینا اور جو انہوں نے اس سلسلہ میں امیر غسّان سے معاہدہ کیا تھا، نیز گرمیوں میں قریش کا شام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف سفر کرنے کی بنیاد رکھنا، ان کی خاص مقبولیت کا باعث بنا۔ عبدالشمس کا بیٹا امیہ، مختلف قبائل میں اپنے چچا کے اس مقام و عظمت اور ان کی بات کے اثر و رسوخ پر رشک کرتا تھا اور چونکہ لوگوں کا محبوب نہیں بن پارہا تھا تو اپنے چچا کے بارے میں برا بھلا کہنا شروع کردیا، لیکن اس کا یہ کام جناب ہاشمؑ کی شان و عظمت میں مزید اضافہ کا باعث بن گیا۔ آخرکار امیہ جو حسد کی آگ میں جلتا رہتا تھا، اس نے اپنے چچا کو مجبور کیا کہ مل کر کسی کاہن کے پاس جائیں تاکہ ان دو میں سے جس کی اس کاہن نے تعریف و تمجید کردی، وہ امور کو سنبھالے گا۔ امیہ کا اصرار باعث بنا کہ جناب ہاشمؑ دو شرطوں کے ساتھ اپنے بھتیجے کی بات کو قبول کرلیں: ۱۔ جسے شکست ہوگئی وہ حج کے دنوں میں سو اونٹوں کی قربانی کرے گا۔ ۲۔ شکست کھانے والا شخص دس سال تک مکہ کو چھوڑ کر جلاوطن ہوجائے۔ اس معاہدہ کے بعد یہ دونوں شخص عُسفان (مکہ کے قریب ایک جگہ) کے کاہن کے پاس گئے، لیکن امیہ کی امید کے خلاف، جونہی کاہن کی نظر جناب ہاشمؑ پر پڑی تو اس نے آپؑ کی مدح و تعریف کرنا شروع کردی۔ بنابریں امیہ معاہدہ کے مطابق مجبور تھا کہ مکہ کو دس سال تک چھوڑ کر شام میں رہے۔[2]
اس واقعہ سے ان دو قبیلوں کی دشمنیوں کی جڑیں بالکل معلوم ہوجاتی ہیں، نیز بنی امیہ کا شام کے علاقہ میں اثرورسوخ کی وجوہات بھی واضح ہوجاتی ہیں کہ کیسے بنی امیہ کے شام سے پرانے تعلقات نے ان کی حکومت کے راستوں کو مستقبل میں فراہم کردیا۔
ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں دوسرا واقعہ نقل کیا ہے جو دور جاہلیت میں ان دو قبیلوں کے اختلاف کو واضح کرتا ہے۔ ایسے اختلافات جن کا سبب بنی ہاشم کا متاثر کن مقام و عظمت ایک طرف سے اور بنی امیہ کا بدنامی اور حقارت کا شکار ہونا دوسری طرف سے ہے۔
اس نقل کے مطابق معاویہ کا بیٹا یزید اپنے باپ کے سامنے، اپنے آباء و اجداد کی تعریف کرتے ہوئے عبداللہ ابن جعفر پر فخر کرتا تھا۔ عبداللہ نے یزید کے جواب میں کہا: تم اپنے بزرگوں میں سے کس کے ذریعے مجھ پر فخر کرتے ہو، کیا حرب کے ذریعے، وہی جس نے ہماری پناہ لی اور ہمارے خاندان کی پناہ میں رہا، یا امیہ کے ذریعے جو ہمارے گھر کا غلام تھا یا عبدشمس کے ذریعے جو ہمارے زیر کفالت و اعانت زندگی بسر کرتا تھا؟ معاویہ نے، جو اس وقت تک خاموش بیٹھا تھا، خاص چالاکی سے اس لفظی نزاع کو ختم کیا، لیکن جب اپنے بیٹے یزید کے ساتھ اکیلا ہوا تو عبداللہ ابن جعفر کی باتوں کی تائید کی اور اس باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: امیہ نے دس سال کی مدت کے لئے جو اس نے عبدالمطلب سے معاہدہ کیا تھا، عبدالمطلب کے گھر میں غلامی اختیار کی اور عبدشمس بھی فقر و غربت کی وجہ سے ہمیشہ اپنے بھائی ہاشم کا محتاج تھا۔[3]
ابن ابی الحدید نے دوسری جگہ پر اپنے استاد ابوعثمان سے نقل کیا ہے کہ بنی امیہ کے سربراہان، معاشرتی مقام اور بلند عہدوں پر قبضہ کرنے کے لئے اتنی لالچ اور لگاؤ دکھانے کے باوجود ہمیشہ ان عہدوں سے دور رہے اور کعبہ کی پردہ داری، دارالندوہ کی صدارت، سقایت (سیراب کرنا) اور حاجیوں کی مہمان داری کے عہدے بنی ہاشم اور قریش کے دیگر قبیلوں کے پاس تھے۔[4]
یہ خاندان ہمیشہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شدت سے مخالف تھا اور فتح مکہ اور مشرکوں کی مکمل ناامیدی تک، اسلام، قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرتا رہا۔ جنگ بدر، احد اور خندق میں کفر و شرک کا جھنڈا نہ صرف ابوسفیان اور معاویہ کے کندھے پر ہوا کرتا تھا بلکہ ان میں سے بعض جنگوں میں ابوسفیان کی بیوی ہند بھی میدان جنگ میں مشرکین کی فوج کی معنوی لحاظ سے حامی و مددگار کے طور پر آتی تھی۔
لیکن جزیرۃ العرب میں اسلام کی فتح کے بعد چونکہ مشرکین کے لئے کھلم کھلا شرک اور جنگ کرنا ناممکن تھا تو وہ کفر، نفاق میں بدل گیا اور انہوں نے ظاہری طور پر اسلام کو قبول کرلیا، لیکن دل میں اور عمل میں، اسلام اور قرآن سے وہی پرانی دشمنی اور کینہ جاری تھا اور جب معاویہ حکومت پر پہنچا تو اس نفاق کے ساتھ ساتھ حقیقی مسلمانوں پر حددرجہ ظلم وستم بھی کرنے لگا اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) پر طرح طرح کے تشدد کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے اہل بیت (علیہم السلام) پرظلم و تشدد کرنے کے لئے اپنے فاسق بیٹے یزید کو مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لئے تخت پر بٹھا دیا۔
نتیجہ: مختلف حادثات اور واقعات جو تاریخ میں رونما ہوتے رہے ہیں ان کے تاریخی پیش خیمہ اور پس منظر کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اگر ایسی نظر سے دیکھا جائے تو اس واقعہ کی حقیقت کی زیادہ پہچان ہوجائے گی اور حق و باطل کو پہچاننے میں آسانی ہوجائے گی، نیز مختلف طرح کی عبرتیں حاصل ہوں گی، کیونکہ کسی شخص یا قبیلہ نے ماضی میں ایسی دشمنی کی جو نسل در نسل چلتی ہوئی، عروج پر پہنچ گئی۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے شخص کو ان کی دشمنی کی جڑوں کی شناخت بھی ہوجائے گی، اس کے نقصانات بھی سمجھ میں آجائیں گے اور ایسی حرکات سے بچنے کے لئے انتباہ بھی مل جائے گی، نیز اگر یہ شخص دشمنی کے اس سلسلہ کو بند کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے تو اس کو بھی جامہ عمل پہنا سکے گا۔ بنابریں معاویہ اور یزید کی دشمنی کا سلسلہ طویل عرصہ سے چلا آرہا تھا اور ان باپ بیٹے نے اپنے باپ داداؤں کی دشمنی کو فروغ دیتے ہوئے، اہل بیت (علیہم السلام) پر ظلم کرکے اپنے تمام تر کینہ اور بغض کو اگل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] تاریخ طبرى، ج 2، ص 13 و کامل ابن اثیر، ج 2، ص 16.
[2] کامل ابن اثیر، ج 2، ص 17 سے اقتباس۔
[3] شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج 15، ص 229-230، ذیل نامه 28 (خلاصہ)۔
[4] شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج 15، ص 198. (خلاصہ)، کامل ابن اثیر، ج 2، ص 22-23۔
Add new comment