خلاصہ: لہو و لغو کے مختلف مصادیق پائے جاتے ہیں، اگر انسان اپنی باتوں اور کاموں میں خاص توجہ نہ رکھے تو ہوسکتا ہے کہ لہو اور لغو کا شکار ہوتا رہے اور اپنی زندگی کے اصل مقصد سے دور ہوجائے۔
بات کرنے پر لہو یا لغو ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ لغو وہ بے فائدہ کام ہوتا ہے جس سے انسان کو نہ دنیاوی فائدہ ہو اور نہ آخرت میں، اور لہو یعنی مصروف کرنے والا کام جو انسان کو معقول اور قیمتی مقصد سے روک لے۔ مومن کا زندگی میں اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی رحمت میں قرار پانا ہے۔
لغو اور لہو کا دائرہ بات سے زیادہ وسیع ہے اور عمل کو بھی شامل ہوتا ہے، لیکن ان کا ایک مصداق فضول یا مصروف کرنے والی باتیں ہیں جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتی ہیں۔ سورہ لقمان کی آیت ۶ میں ارشاد ہے: "وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُواً أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ"، "اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا بے ہودہ کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے"۔
اس آیت میں لہوالحدیث سے مراد مصروف کرنے والے الفاظ اور آوازیں ہیں۔ اسی لیے روایات میں لہوالحدیث کا ایک مصداق غنا شمار کیا گیا ہے۔ لہذا ہر مصروف کرنے والی بات جو انسان کو اللہ کے راستے سے روکے اور اسے گمراہ کرے، وہ لہو الحدیث کا مصداق ہے۔
قرآن کریم نے مختلف آیات میں دنیا، اولاد، مال، تجارت وغیرہ کو لہو کہا ہے۔ ہمیں ان میں سے ہر ایک کی صحیح حدوں کا خیال رکھنا چاہیے اور اگر ہم نے حد سے زیادہ ان پر توجہ دی تو وہ ہمیں اپنی زندگی کے اصل مقصد سے روک لیں گے اور لہو اور مصروف کرنے والی حالت پیدا کردیں گے۔
لہذا ان پر توجہ دینا اس لحاظ سے کہ ہم اپنے مقصد تک پہنچ جائیں، خاص اہمیت کے حامل ہیں، لیکن اگر یہ وسیلہ اور سبب ہونے کے علاوہ ہماری نظر میں اصل مقصد کی جگہ پر آگئے اور ہمیں اپنے اصل مقصد سے روک لیا تو لہو کا مصداق بن جائیں گے اور اس اضافہ توجہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہماری مذمت کرتا ہے، کیونکہ یہ ہمارے مستقبل کو تباہ کردیں گے۔
لغو، اپنے طور پر حرام نہیں ہے، بلکہ اسے چھوڑنا اچھا اور بہتر ہے۔ ٰ سورہ مومنون کی تیسری آیت میں ارشاد الٰہی ہے: "وَالَّذِينَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ"، "اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے ہیں"۔
اس آیت سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ ہر طرح کے لغو سے منہ موڑنا لائق تحسین ہے، چاہے بات میں لغو ہو یا عمل میں۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مصباح یزدی، ج۳، ص۳۵۰۔
Add new comment