خلاصہ: معیار یہ ہے کہ جو تمہارے لیے فائدہ مند نہیں ہے وہ "لغو" ہے اور اس کا ارتکاب نہ کرو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ مومنون کی دوسری آیت میں فلاح پانے والے مومنین کی پہلی صفت نماز میں خشوع بیان ہوئی ہے اور دوسری صفت کہ جو تیسری آیت میں بیان ہوئی ہے، فضول چیزوں سے رُخ موڑنے کی صفت ہے۔ ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ . الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ . وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ"، "یقیناً مومنین فلاح پاگئے، جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں، اور جو لغو سے رُخ موڑنے والے ہیں"۔
خشوع کو صرف واجب نمازوں کے بارے میں نہیں فرمایا، بلکہ نمازوں میں خشوع کا تذکرہ کیا ہے، یعنی خود نماز مراد ہے، مگر بعض نمازوں کے مصادیق واجب ہیں، بعض واجب مُؤَکَّد، بعض مستحب مؤکد، بعض عام مستحب۔ یہ سب مطلوب ہیں رتبوں کے فرق کے ساتھ اور سب کا فلاح و کامیابی پر اثر بھی ہے درجات کے فرق کے ساتھ۔
نقصان دہ چیزوں سے پرہیز کے بارے میں بھی اسی طرح ہے، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ گناہان کبیرہ (بڑے گناہوں) کو چھوڑ دو، بلکہ ایک کلّی عنوان بیان کیا ہے جو فضول سے رُخ موڑنا ہے۔ اس کا واضح مصداق بڑے گناہ ہیں یا بعض گناہ ہیں، لیکن یہ کلّی عنوان کئی اور کاموں کو بھی شامل ہوسکتا ہے، پھر مشتبہ اور مشکوک کاموں کو بھی شامل ہوسکتا ہے، مکروہات کو بھی شامل ہوسکتا ہے، بلکہ بعض اوقات بعض مباح کاموں کو بھی شامل ہوسکتا ہے۔
معیار یہ ہے کہ جو تمہارے لیے فائدہ مند نہیں ہے وہ "لغو" ہے اور اس کا ارتکاب نہ کرو۔
تمہارے سامنے مقصد ہے اور تم مقصد تک پہنچنا چاہتے ہو، دیکھو کہ کون سا کام تمہارے لیے فائدہ مند ہے۔ سب سے بڑا کام نماز ہے۔ اسے خشوع کے ساتھ بجالاؤ۔ جس آدمی کے سامنے مقصد ہوتا ہے وہ اپنی طاقت کو ان چیزوں پر نہیں لگادیتا جو مقصد تک پہنچے سے رکاوٹ ہوں یا کم از کم اسے مصروف کرلیتی ہوں اور اسے چلنے سے روک دیتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اصل مطالب ماخوذ از: نشریہ معرفت، ج۱۰۷، ص۳، اخلاق و عرفان اسلامی، استاد محمد تقی مصباح یزدی]
Add new comment